تحریر : سید انور محمود کوئٹہ 23 اکتوبر کو تمام دن دہشتگردوں کے نشانے پر رہا، کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کے قریب نامعلوم مسلح ملزمان نے ایک گاڑی پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں گاڑی میں موجود 9افراد شدید زخمی ہوگئے جنہیں اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ ان میں سے 6 افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے جبکہ 2 زخمی اسپتال میں طبی امداد دیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ واقعے کے ایک زخمی کو اسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے۔قمبرانی روڈ پر سیکیورٹی فورسز کے قافلے کے قریب دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا جبکہ خاتون سمیت 5افرادزخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ ایک خودکش حملہ جمعیت علماء اسلام ف کی مفتی محمود کانفرس کے جلسے کے ختم ہونے کے فورا بعد مولانا فضل الرحمان کی روانگی کے وقت ہوا۔ زوردار دھماکے کے نتیجہ میں3 افرادجاں بحق اور 15زخمی ہو گئے۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان اپنی تقریر مکمل کرکے اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھے اور ان کی گاڑی روانہ ہوئی اسی وقت زوردار دھماکا ہوا، دھماکے کے بعد جے یو آئی ف کے کارکنان مولانا کی گاڑی کے اوپر چڑھ گئے اس دوران مولانا نے کارکنان کو بتایا کہ وہ محفوظ ہیں جس کے بعد کارکنان ان کی گاڑی سے دور ہو گئے۔
دھماکے کے کافی دیر بعد مولانا نے دعوی کیا کہ دھماکے کا نشانہ میں ہی تھا، تاہم اللہ کا شکر ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی خیریت سے ہیں۔گاڑی کونقصان پہنچا، جیسےہی گاڑی میں بیٹھا دھماکا ہوگیا، گاڑی بم پروف تھی اور کوئٹہ پولیس نے مولانا کو دی تھی۔ کالعدم دہشت گرد تنظیم “جند اللہ”نے جمیعت علماءاسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر خوکش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جنداللہ کے کمانڈر کی طرف سے میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک جمہوریت پسند شخصیت ہیں جبکہ ہماری جنگ اسی جمہوریت کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اُن کو خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا، دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ انہوں نے جند اللہ کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا، کمال ہے مولانا اپنے بھائی کو نہیں پہچان رہے۔
جنداللہ کےکمانڈرکو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ہمدرد پر حملہ کردیا، اگر وہ گذشتہ دس سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو مولانا فضل الرحمن سے زیادہ اُنکو اپنا کوئی ہمدرد نہیں ملے گا، یہاں تک کہ حکیم محسود کے ڈرون حملے میں مارئے جانے پر تو مولانا نے دہشت گردوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار یوں فرمایا کہ اگر امریکہ ڈرون حملے میں کوئی کتابھی مارا جائے گا تو وہ شہید ہے۔ یہ تو خیر کبھی نہیں سنا کہ امریکن ڈرون حملوں میں کوئی کتا مرا ہو، ہاں اکثر مولانا کے حمایت یافتہ دہشت گرد ضرور کتے کی موت مارئے گے ہیں۔ جنداللہ کے کمانڈرکا مولانا فضل الرحمان پر یہ الزام کہ مولانا ایک جمہوریت پسند شخصیت ہیں جبکہ ہماری جنگ اسی جمہوریت کے خلاف ہے اور اسی وجہ ہے کہ آج اُن کو خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا ۔ لگتا ہے کہ جنداللہ کے کمانڈریا تو نیا ہے یا پھر اسکوپوری معلومات نہیں ہیں۔ دسمبر 2012ء میں جب پاکستان میں الیکشن ہونے جارہے ہیں اچانک جند اللہ کے اتحادی طالبان دہشت گردوں کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت مانگی تھی۔ دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد کے ذمیدار ضیاءالحق، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔اُ سوقت نواز شریف تو اپنا دامن بچاکر علیدہ ہوگئےلیکن دہشت گردوں کے پیٹی بند بھائی مولانا فضل الرحمان اور منورحسن کو اپنی سیاست کی دوکان چلانے کے لیے طالبان دہشت گردوں کا ساتھ بہت ضروری تھا۔ طالبان کی اکثریت تو مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں کی پڑھی ہوئی ہے۔کیا وجہ تھی کہ طالبان نے ایک ایسے وقت جب سابقہ حکومت کے جانے میں چند دن باقی تھے مذاکرات کی بات شروع کی، دہشت گرد آنے والے الیکشن میں اپنے پیٹی بندساتھیوں کی مدد کرنا چاہتےتھےاور انہوں نے اپنے پیٹی بند ساتھیوں مولانا فضل الرحمان اور منور حسن کی مدد کی بھی۔ دہشت گرد تنظیم جنداللہ کے کمانڈر کو معلوم ہونا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمان کے بارئے میں پاکستان میں صرف ایک رائے پائی جاتی ہے کہ مولانا جمہوریت پسندقطعی نہیں بلکہ مفاد پرست ہیں۔
Nawaz Sharif
نواز شریف حکومت کے ساتھ طالبان کےمذاکرات میں کچھ ایسا ماحول بن گیا جو مولانا کے مفادات پر پورا نہیں اترتا تھا، لہذا مولانا نے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ مذاکرات کے درمیان میں دہشت گردی بھی جاری تھی اور آخرکار پاکستان کی فوج کو آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خاتمے کےلیے ایک بڑا آپریشن شروع کرنا پڑا۔ وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کوئٹہ خود کش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری دلی دعائیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہیں اور ہم ان کی خیریت کیلئے دعا گو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے فوری بعد وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کو ٹیلی فون کرکے ان کی خیریت دریافت کی، ویسے ماضی میں مولانا جن جن کے اتحادی رہے اُن سب نے مولانا سے اُنکی خیریت معلوم کی ہے، جبکہ مولانا ، مولانا کی جماعت اور مولانا کے ہمدرد اس واقعہ پر احتجاج کررہے ہیں۔ کوئٹہ میں 23 اکتوبر کے اس خودکش حملے کے بعد جس میں مولانا کی جان بھی جاسکتی تھی مولانا فضل الرحمن کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ دس جنوری 2013ء کو بلوچستان کے اسی شہر کوئٹہ ميں بم دھماکوں کے نتيجے ميں 116 افراد ہلاک جبکہ تقريباً 250 افراد زخمی ہوگئے۔
مولانا کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ بلوچستان میں اتحادی تھی اور اسکا ہر رکن اسمبلی وزیر تھا۔ شہید ہونے والوں کے ورثا نے دھماکوں میں مرنے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو دفن کرنے سے انکار کردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت کوبرطرف کر کے کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ مظاہرین سے مذاکرات کے بعد صوبہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا جبکہ صوبائی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا۔ اس واقع میں ہلاک ہونے والوں سے تو مولانا فضل الرحمن کو کوئی ہمدردی نہ تھی مگر مولانا اور اُنکی جماعت نے بلوچستان حکومت کی برطرفی کےخلاف احتجاجی تحریک شروع کردی تھی ۔ مولانا فضل الرحمن نے بظاہر گورنر راج کو جمہوریت کے خلاف اقدام قرار دیا تھا لیکن دراصل وہ اپنے مفادات کے چھن جانے پر بلبلا رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن یا ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ مولانا اپنے سیاسی مفادات کےلیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر ہی دوسروں کی دل شکنی بھی کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرس بھی مولانا کے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی ایک چال تھی یہ ایسے ہی تھی جیسے مولانا مئی 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پراپنے سیاسی جلسے ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے نام سے کرتے رہے اوراسلام کے نام پر ووٹ مانگتے رہے۔
اس مرتبہ کے انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں مولانا کے مفادات حاصل نہیں ہوپائے ہیں ، لہذا انہوں نے 23 اکتوبر کو کوئٹہ کے صادق شہید گرائونڈ میں مفتی محمود کانفرس سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی، لاشیں گر رہی ہیں دھماکے ہو رہے ہیں۔ ہمارے جلسے کو ناکام بنانے کیلئے ہزار گنجی میں خون کی ہولی کھیلی گئی اب مذاق کی سیاست نہیں چلے گی ہم نے جمہوریت اور ملکی نظام کو بچایا اگر ہمارے ہاتھ سے رسی چھوٹ گئی تو پھر کوئی اس ملک کو نہیں بچاسکتا، پاکستان کا ماحول مسلح جنگ کیلئے موزوں نہیں عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ عسکریت پسند یا عام زبان میں دہشت گرد تو اُنکے بھائی ہیں، لیکن 23 اکتوبر کو تو اُن کے بھایئوں نے اُن سے آنکھیں پھیر لیں اور اُن پر بھی خود کش حملہ کرڈالا۔مولانا فضل الرحمان لاکھ کچھ کہیں لیکن مولانا جانتے ہیں کہ 23 اکتوبرکو اُن پردہشت گرد حملہ اُنکے اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں کا کام ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے، بھائی بھائی کو مار رہا ہے لیکن شکر ہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنے پیٹی بند بھائی جنداللہ کے خود کش حملے سےبچ گے۔ اللہ تعالی مولانا کو سلامت رکھے، مولانا پر اس سے پہلے2011ء میں بھی دو حملے ہوچکے ہیں۔