تحریر : سید انور محمود گذشتہ دنوں نیویارک میں ہونے والے دو روزہ بین الا پارلیمانی مباحثے میں شرکت کیلئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفوری حیدری اور انکے ہمراہ جانے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو ویزا درخواستں دی تھیں۔امریکی سفارت خانے نے سینیٹر صلاح االدین ترمذی کا ویزا جاری کردیا، مگر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفوری حیدری کو ویزا دینے سے انکار کردیا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری کوامریکی سفارت خانے کی جانب سے ویزا دینے سے انکار پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بے وجہ میدان میں کود پڑئے اور امریکی سفارت خانے کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے دورہ امریکا کومنسوخ کردیا، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’’امریکی حکومت یا سفارت خانے کی وضاحت تک کہ مولانا غفور حیدری کو ویزا کیوں جاری نہیں کیا گیا سینیٹ کا کوئی وفد امریکا نہیں جائے گا، اور جب تک معاملہ حل نہیں ہو جاتا امریکی کانگریس کے کسی رکن یا سفارت کار کو سینیٹ میں خوش آمدید نہیں کہیں گے‘‘۔
جواب میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا کہ مولانا غفور حیدری کی ویزے کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ درخواست دہندگان کے نجی کوائف کے تحفظ کی خاطر ویزا معاملات کی تفصیلات بتانے سے ہمیشہ پرہیز کیا جاتا ہے۔سینٹ کے 2015 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی بلامقابلا چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے تھے۔
جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی مکاری اور چالاکی سے اپنی ہی جماعت کے مولانا غفورحیدری کو سینیٹ کا نائب چیئرمین بنوایا تھا۔مولانا فضل الرحمٰن جو ایک خود غرض سیاستدان ہیں ،ایک مذہب فروش سیاسی لیڈر، طالبان دہشتگردوں کے حامی اور اپنے نام نہادامریکا مخالف موقف کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے مولانا اکثرامریکی پالیسیوں پرتنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر ویزا پابندی پر امریکی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
BBC Urdu
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان کے سرکاری گروپ کے کسی رکن کو امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ ان کے بقول ’معلوم نہیں کہ یہ پاکستان پر کسی غیر اعلانیہ سفری پابندی کی علامت ہے یا اس کی وجہ کچھ اور ہے‘۔ دہشتگردوں کے حامی مولانا غفور حیدری یہ نہیں بتایا کہ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا گیا ہے جس کے بارئے میں سب جانتے ہیں کہ وہ نہ صرف طالبان دہشتگردوں کا حامی ہے بلکہ وہ دہشتگردوں کا سہولت کار بھی ہے، اور امریکی سفارت خانے نےاس وجہ سے ہی اس کو ویزہ دینے سے انکار کیا ہے۔
ہر ملک کی ویزا دینے کی پالیسی ہر ملک کے لیے نہ صرف مختلف ہوتی بلکہ وہ ذاتی بھی ہوتی ہے جس میں ہر شخص کے ذاتی کردار کو بھی پرکھا جاتا ہے اور دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جو دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو ویزا دیتا ہو۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی 1993 سے سینٹ کے رکن ہیں۔ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سےہے، وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی بائیں بازو کی سیاست کرتے رہےہیں، وہ ایک صاف کردار والے سیاستدان ہیں، وہ ہمیشہ ایک لبرل سوچ کے حامل رہے ہیں۔ وہ اور انکی پارٹی ہمیشہ دہشتگردی اور دہشتگردوں کی حمایت کرنے والوں کی مخالف رہی ہے۔
چیئرمین سینٹ رضا ربانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا غفور حیدری کا ماضی اور حال کیا ہے، لہذا یہ بہتر ہوگا کہ وہ دہشتگردوں کے سہولت کار کا ساتھ نہ دیں، ویسے بھی امریکن سفارت خانے نے مولانا غفور حیدری کو ویزا نہ دینے کی وضاحت کردی ہے۔حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ ایسے لوگوں کی حمایت نہ کرئے جو دنیا بھر میں دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، پاکستان کے عوام بھی دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے سخت مخالف ہیں۔