یہ فروری ۲۰۲۰ کے آخر کی بات ہے کہ مولانا ناصر مدنی کو اُن کے واٹس ایپ نمبر پر لندن کے نمبر سے کال آئی، سلام دعا کے بعد کال کرنے والے نے بتایا کہ وہ لندن سے پاکستان آیا ہے، وہاں کرونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لہذا وہ اپنے وطن واپس آ گیا ہے ، اُس نے مولانا سے ملنے کی خواہش کی، مولانا نے بتایا کہ وہ کہاں ہوتا ہے تاکہ جب وہ اُس کے شہر جائیں تو اس کو اطلاع کر دیں اور وہ اُن سے مل لے۔ اُس نے بتایا کہ وہ کھاریاں کا رہائشی ہے۔ اس کے بعد اُس فرد نے وقتاً فوقتاً مولانا سے علیک سلیک رکھنا شروع کر دی ،حتیٰ کہ ۱۶ مارچ کا دن آ گیا۔ ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے پینک کی سچوئشن بنی ہوئی تھی ، حکومت نے پبلک گیدڑنگ پر پابندی لگا دی اور مولانا ناصر مدنی کے عوامی اجتماعات بھی ختم ہوگئے۔ ۱۶ مارچ کو مولانا کا کھاریاں کا پروگرام طے تھا، یہ بھی شیڈول کے مطابق نہ ہو سکا ، مولانا نے اپنے خیر خواہوں کو اطلاع دے دی۔ اُن میں لندن والا بھی شامل تھا۔ اِس نے اصرار کیا کہ آپ کھاریاں تشریف لے آئیں، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، لاہور سے میرا ایک دوست بھی کھاریاں آنے کیلئے تیار ہے، اُس کے ساتھ ہی آ جائیں، مولانا اس کو انکار کرتے رہے کہ اب جب وائرس کی وجہ سے اجتماعات پر پابندی ہے تو میں کیسے آ جاؤں؟ لندن والے نے کسی نہ کسی طرح مولانا کو کھاریاں آنے کیلئے راضی کر لیا ، اُس کا کہنا تھا کہ آپ کھاریاں آ جائیں اور دعا ہی کروا دیں۔ مولانا نے اُس کے بے انتہا اصرار کے آگے ہار مان لی اور آنے کی حامی بھر لی۔
مولانا اپنے وکیل دوست عبدالماجد چوہدری کے دفتر المرتضیٰ بلڈنگ مزنگ لاہور سے کھاریاں جانے کیلئے نکلے، اُن کے ساتھ اُن کا ڈرائیور ، ملازم اور لندن والے کا بندہ ’بِلو‘ بھی تھا۔ پروگرام یہی تھا کہ کھاریاں دعا کروا کے وہ واپس آ جائیں گے۔ اُنہوں نے کھاریاں اپنے دوست کو شیر جان کو فون کیا کہ میں کھاریاں آ رہا ہوں، آپ بھی آ جائیں، عجوہ ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں ۔ شیر جان بھی ہوٹل پہنچ گیا۔ مولانا نے سب کے ہمراہ کھانا کھایا ، شیر جان نے مولانا سے درخواست کی کہ میری والدہ کیلئے دعا کروا دیں تو مولانا نے کہا کہ مجھے میرے اِن مہمانوں (لندن والے) نے مجھے بلایا ہے، پہلے میں ان کی طرف دعا کرواآؤں تو اُس کے بعد میں آ پ کی طرف تشریف لاتا ہوں۔ مولانا اس کے بعد لندن والوں کے ساتھ اُن کے گاؤں کی جانب چل پڑے۔ یہ کھاریاں سے کچھ دور بنوریہ کے نام سے واقع ہے۔ وہاں وہ اُن کے ڈیرے پر چارپائی پر بیٹھے، جوتے اتارے اور نیم دراز ہو گئے۔ اتنے میں ہی کمرے میں ۸ سے ۱۰ مشٹنڈے بدمعاش مسلحہ ہو کر داخل ہوئے۔ مولانا نے ازراہ مذا ق کہا کہ لگتا ہے یہاں سے آج میری لاش ہی جانی ہے۔
میزبانوں کے بدلتے تیور دیکھ کر مولانا کو احساس ہوا کہ وہ کسی بڑی مشکل میں پھنس چکے ہیں، انہوں نے مولانا کو الگ کمرے میں بند کیا، اُن کے کپڑے اتروائے اور اُن کو پائیپ کے ساتھ مارنا شروع کر دیا۔ مولانا نے بعد ازاں میڈیا کے سامنے اپنی ننگی کمر دکھائی ، اُ ن کی کمر پر زخموں کے نشان ابھی بھی دیکھے جا سکتےہیں۔انہوں نے مولانا کو مار مار کر ادھموا کر دیا۔ اغوا کاروں نے مولانا کو نشہ آور مشروب بھی پلایا ، اُن سے ایک کاغذ پر دستخط بھی کروائے اور اُن کے تمام سوشل میڈیا اکاونٹس بھی ہیک کر لئے۔ مولانا کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور اُن کے سوشل میڈیا کے اکاونٹس کو ہیک کرنا ہی اغوا کاروں کا اصل مقصد تھا جو کہ اِس ساری کاروائی میں کسی تیسرے گروہ کے ساتھ رابطے میں بھی تھے اور مستقل ہدایات بھی لے رہے تھے۔ اِس گروہ نے مولانا کو اُن کی گاڑی میں رات کے اندھیرے میں ڈال کر ویرانے میں چھوڑ دیا اور دھمکی لگائی کہ اگر پولیس یا میڈیا کو اس معاملے کے بارے میں اطلا ع تو تمہیں لاہور ہی میں گولی مار کر قتل کر دیں گے۔
میں مولانا کی ہمت کو سلام کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ڈرنے کی بجائے ہمت سے کام لیا، پولیس میں ایف آئی آر بھی کٹوائی، ایف آئی اے سائبر کرائم میں بھی گئے اور اپنے ایشو کو میڈیا میں بھی ہائی لائٹ کیا۔ پولیس اب تک تمام ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے لیکن کچھ سوالات ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری اس سوسائٹی میں عدم برداشت دم توڑ چکی ہے؟ میٹھے لہجے کے حامل مولانا مدنی کو اغوا کرنا اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ میں خود ان کی ویڈیوز کو دیکھتا رہا ہوں، ماں کی شان سے شہرت حاصل کرنے والے اس عالم دین کی کوئی ویڈیو اس خاکسار کو تولائن کراس کرتی ہوئی نہیں لگی۔ جس ویڈیو کی وجہ سے ممکنہ طور پر پھونکوں والی سرکار کے مریدوں نے مولانا کو اغوا کیا ہے، اُس میں بھی کیا غلط ہے؟ جو سرکار پھونکوں سے کینسر تک کا علاج کر سکتی ہے، کرونا کے معاملے پر غائب کیوں ہے؟
مولانا کا موقف بھی یہی تھا کہ آج آپ کے علم اور کرامات کی ضرورت ہے تو آئیے، آج اس انسانیت کی خدمت کیجئے اور بجائے کہ خدمت کی جاتی، اِنہوں نے اپنے مریدوں سے حملہ کروا دیا۔ یہ عدم برداشت اس معاشرے کو کہاں لے کر جائے گی؟ ہم کیوں مخالف کا موقف تحمل اور آرام سے سننے کے روادار نہیں رہے ہیں؟ میری ساس اور سسر مجھے کہتے رہ گئے کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھا کرو، گھر میں پڑھنے سے بہتر ہےاور میں خاموشی سے سر ہلا دیتا۔ میں اُن کو کیا کہتا کہ اللہ کے گھر پر ناجائز قابض ان نام نہاد ملاؤں کی وجہ سے میں خدا کے گھر میں جمعے کی جمعے جاتا ہوں۔ مولانا مدنی مجھ جیسے بھٹکے ہووں کو کسی نہ کسی طرح دین کی طرف لا رہے تھے، مسجد کا راہ دکھا رہے تھے اور خدا کے دشمنوں نے اس نرم اور میٹھے لہجے میں بات کرنے والے کو زخمی کرکے ہمارے دلوں کو بھی لہو لہان کر دیا ہے ۔ اس سے قبل جنید جمشید شہید ؒ کے ساتھ بھی یہی ہو اتھا، مولانا طارق جمیل صاحب، مفتی طارق مسعود بھی مخالفین سے گالیاں کھا رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ امن کا درس دینے والا مذہب، بھائی چارے کی تلقین کرنے والا دین اور گروہ بندی سے منع کرنے والے اسلام میں ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جس کی ممانعت ہے۔ کیا ایسے اسلام کی خدمت ہوگی؟ کیا ایسے لوگ جڑیں گے؟ کیا ایسے معاشرے میں رواداری اور برداشت آئے گی؟ سوچیں، اگر جواب ملے تو مجھے بھی بتائیں۔