گزشتہ صدی کے آغاز میں برطانیہ دنیا کا سب سے بڑا طاغوتی سامراج بن کر ابھرا تھا۔ جس ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس میں شام ظلم بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔مشرق سے مغرب تک تاج برطانیہ کی مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ ،سیکو لرازم اورلبرل ازم کاکوڑابن کر انسانیت کی پشت پر برستا چلا جا رہاتھا اور اس جنگلی درندے کامن بھاتا کھا جا قوموں کی آزادی تھا جو ”لڑاؤاورحکومت کرو”کی چکی میں پیس پیس کرکھانے کے باوجود اس سرمایادارانہ سودخورکے پیٹ کاایندھن بھرے جانے سے قاصرتھا۔جرمنی نے جب اس عالمی استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو سلطنت عثمانیہ نے کھل کر جرمنی کاساتھ دیا۔مسلمانان ہندوستان میں پریشانی کی لہردوڑ گئی کہ متوقع کامیابی کے بعد برطانوی انسانیت دشمن ومتعصبانہ ذہنیت سلطنت عثمانیہ سمیت تبرکات ومقدسات امت مسلمہ کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کرے گی۔ہندوستان کے عمائدین اسلامیہ کے ایک وفدنے اس ضمن میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم” لائڈجارج”سے ملاقات کی اور اس سے احترام شعائرامت مسلمہ کا وعدہ لیا۔برطانوی وزیراعظم نے عہد کیاکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی توہین نہیں ہوگی،سلطنت عثمانیہ برقراررہے گی اور بلادمقدسہ بھی خلیفہ مسلمین کے زیر انتظام رہیں گے۔مشہور مثل ہے کہ فرعون آج بھی زندہ ہے۔تاج برطانیہ کی فتح کے شادیانوں میں یہ وعدے تحلیل ہوگئے اور فرعون ایک بار اپنے وعدہ خلافی کی صورت میں زندہ ہوگیا۔ہندوستان کے مسلمانوں نے ”تحریک خلافت”کے نام سے ایک بہت بڑی مہم برپاکی تاکہ مکاروعیارگورے کواس کے عہدوپیمان یاددلائے جائیں۔اسی تحریک خلافت سے پھر تحریک آزادی ہند نے جنم لیااور انگریزاپنابستربوریاباندھ کر یہاں سے رخصت ہونے پر مجبورہوگیا۔اس ”تحریک خلافت”کے روح رواں اور باسیان برصغیرپاک و ہندکے محسن اعلی ”جناب مولانامحمدعلی جوہررحمة اللہ علیہ ”تھے۔
مولانامحمدعلی جوہردورغلامی میں جنم لینے کے باوجودہندوستانیوںکے عظیم راہنماتھے۔صوبہ اترپردیش کی مشہور ریاست”رام پور”میں پیداہوئے،تاریخ پیدائش 10دسمبر1878ء ہے۔دوسال کی بہت چھوٹی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہو گئے۔صرف والدہ کی زیرسرپرستی پرورش پائی۔ابتدائی تعلیم پہلے اپنی جنم بھونی رام پورمیں حاصل کی اورسب سے پہلے قرآن مجید پڑھناسیکھااوراس کے بعد ایک سرخ داڑھی والے استاد محترم سے فارسی کی شدبدھ حاصل کی اورکچھ عرصہ رام پور کے سرکاری مدرسے میں بھی زیرتعلیم رہے ۔آپ کے دوبڑے بھائی شوکت علی اور ذوالفقارعلی رام پورسے چالیس کلومیٹردور برلی شہر کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھتے تھے۔۔تب آپ کوبھی ان کے ساتھ شہربریلی میں دارالاقامہ کے اندر منتقل کردیاگیااور یوں آپ کے اسفارعلمیہ کاآغازہوا۔آپ کی علمی ذہانت بریلی میں ظاہرہوناشروع ہوگئی تھی اور نصابی و ہم نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں میں ہم جولیوں سے کہیں آگے کی کارکردگی پیش کرتے تھے۔لیکن بریلی میں آپ کاقیام زیادہ عرصہ نہ رہاکیونکہ آپ کے بڑے دونوں بھائی علی گڑھ چلے گئے تھے توآپ کو بھی ان کے ساتھ وہیں منتقل ہوناپڑاتاکہ تینوں بھائی اکٹھے تعلیم حاصل کرپائیں۔پس آپ نے علی گڑھ کے مشہورتعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیااورآٹھ سال کے اس تعلیمی عرصے میں حسب سابق نمایاں کامیابیاں حاصل کیںاورخاص طورپر1896کے امتحانی نتائج میں بی اے کی سطح پرصوبے بھرمیں اول قرارپائے۔آپ کے اساتذہ نے اسی دوران پیشین گوئی کردی تھی کہ محمدعلی بہت بڑاادیب بنے گاجو بعد میں سچ ثابت ہوئی۔ابھی طلب علم باقی تھی تو اپنی تشنگی کوسیرابی میں بدلنے کے لیے ولایت کے مشہور زمانہ آکسفورڈ لنکن کالج سدھارگئے۔اس کالج میں دوران قیام یہ ذہین اورشاعری کے جذبات رکھنے والا بے حدحساس نوجوان نفسیاتی طورپر بہت زیادہ برہم رہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہندوستان میں ایک غلام قوم کے فرد تھے اور اب انگلستان میں انہوں نے ایک آزاد قوم کے شعائربے نیازی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔اپنی قوم کے لیے آزادی کی تڑپ نے انہیں بے انتہابے چین کر دیا یہاں تک کہ بہترین تعلیمی کارکردگی کامظاہرہ کرنے والاصف اول کا طالب علم یہاں پرتعلیمی امتحانات میں ناکامی کا منہ دیکھنے پربھی مجبورہوگیا۔وہ ہروقت اپنی قوم کی ذہنی و تعلیمی و سماجی غلامی پرکڑھتے رہتے تھے اوران کاقائدانہ ذہن مستقبل کے منصوبے بناتارہتاتھا۔
مسلسل ناکامیوں اور جذباتی عدم مطابقت کے باعث آپ کو ہندوستان میں واپس بلالیاگیا۔ماں سے بہترکون اپنے بچے کوجان سکتاہے چنانچہ ماں نے بار دیگرذہن سازی کی اورڈوبتے ہوئے اس نونہال کو گہرائی سے کھینچ کر طوفانوں سے مقابلہ کرنا سکھایا۔اسی دوران ”امجدی بیگم”ان کی شریک حیات قرارپاگئیں۔طبیعت متوازن ہوئی توآپ کو دوباہ انگلستان بھیج دیاگیا۔اب کی بار ماں کی تربیت نے وہ جوہر دکھائے کہ محمد علی کو محمدعلی جوہر بنادیا۔آپ آکسفورڈسوسائیٹی کے رکن منتخب ہوگئے اور یہ منصب پہلی دفعہ کاتب تقدیرنے کسی ہندوستانی کی قسمت میں لکھاتھا۔تکمیل تعلیم کے بعدہندوستان میں آئی سی ایس جوکہ مقابلے کاامتحان تھااس میں کامیابی کے بعد رام پور کے اندرسرکاری ملازمت پر فائز ہوئے۔
انگریزکی نوکری طبیعت میں خلجان کاباعث بنی تو میدان صحافت کاانتخاب کیاحالانکہ اس زمانے میں سرکاری نوکری بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی لیکن ذہنی آزادفرد کوغیرقوم کی چاکری کیونکر راس آتی۔صحافت کے لیے مقصدکے لیے کلکتہ شہرکاانتخاب عمل میں آیااور”کامریڈ”نامی اخبار نکالا،یہ اخبار اپنے دورکا صف اول کااخبارتھااوراردواورانگریزی پر مولانا کی زبردست گرفت کے باعث ملک میں اور ملک سے باہر بھی بڑی کثرت سے پڑھاجاتاتھا۔ہندوستان میں برطانوی عملہ اور برطانیہ کے رہنے والے بھی بہت شدت سے اس اخبارکے منتظررہتے تھے اور بہترین زبان دانی اور انشاء پردازی سے محظوظ ہوتے تھے۔صحافت کو آپ کے ادبی پس منظرنے چارچاندلگادیے تھے۔آپ نے دس سال کی عمر میں شعرکہنے شروع کر دیے تھے۔آپ کی خوش قسمتی تھی علی گڑھ قیام کے دوران آپ کو سجادحیدریلدرم اورحسرت موہانی کی صحبتیں میسررہیں اوران کی اصلاح سے آپ کا شعری ذوق ارتقاء کی منازل تیزی سے طے کرتارہا۔صحافت میں”کامریڈ” کے کامیاب تجربے کے بعد ایک اور اخبار”ہمدرد”بھی جاری کیااورقومی و بین الاقوامی سطح پر بڑے دبنگ وجراتمندلکھاری بن کر ابھرے۔
تحریک خلافت کی قیادت مولانامحمدعلی جوہر کاوہ کارنامہ ہے جو صدیوں تک یادرکھاجائے گا۔اسی تحریک کی وجہ سے ترکی کے عوام ہندوستانی مسلمانوں سے بے حد محبت اور بے انتہا احترام کرتے ہیں۔دورغلامی کی باقیات کے بعد بہت جلد جب اسلامی دنیامیں خلافت اسلامیہ کے ادارے کی تاسیس نوہو گی تو اس کی بنیادوں میں تحریک خلافت اوراس کی قیادت کی کاوشیں اظہرمن الشمس ہوں گی۔مولانامحمدعلی جوہر اس تحریک کی قیادت میں تنہانہیں تھے،ان کے سگے بھائی مولاناشوکت علی بھی یمین و یسار ان کے ہم رکاب تھے،ان دونوں کو ”علی برادران”کے نام سے بھی یادکیاجاتاہے۔اور دونوں بھائیوں کی اتنی بڑی تاریخ ساز قربانیوں کی پشت پر ان کی والدہ محترمہ کی دینی فکراور مذہبی تربیت کارفرماتھی۔ان محترمہ نے امت کو دو ایسے سپوت فراہم کیے جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت تائیدایزدی سے تاریخ کابڑھتاہوادھاراپلٹ دیا۔ مامتاکی گود بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے،ماں کی لوریاں بچے کے ذہن میں پتھرپر لکیرکی طرح ثبت ہوجاتی ہیں،بچے کا دماغ خالی سلیٹ کی طرح ماں کے سامنے کھلاہوتاہے، چاہے تو میرجعفراورمیرصادق بنادے اور چاہے تومولاناجوہرعلی اورمولانا شوکت علی بنادے۔مولانا محمدعلی جوہرنے تحریک خلافت کے دوران بہت برے حالات دیکھے۔آپ برطانوی وزیراعظم سے ملے اور حکومت برطانیہ کامعاہدہ یاددلایالیکن برطانوی قیادت مکرگئی ،اس کے بعد آپ نے یورپ کے دیگرممالک کابھی دورہ کیالیکن ہرجگہ ناکامی منہ چڑاتی رہی کیونکہ ”الکفرملة واحدة”۔اپنے وطن میں ہندوؤں نے اپنے مطلب کی خاطراتحادکیالیکن جب کبھی بھی قربانی کاموقع آتاتوبرہمن بڑی صفائی سے کنارہ کرلیتااور پولیس کے ڈنڈے اور انگریزکی عدالتوں سے دارورسن کی عقوبات مسلمان قیادت کو بھکتنی پڑتیں۔اسی لیے مولانا محمدعلی جوہر تحریک خلافت کے دوران بہت عرصہ پس دیوار زنداں رہے۔
مولانا ذیابیطس کے مریض تھے اور مسلسل مصروفیت کے باعث مرض بڑھتاچلاجارہاتھا۔1920ء میں کراچی جیل کے اندرآپ کی داہنی ٹانگ میں سوزش پیداہوچکی تھی،عدم آرام اور مسلسل سفروقیدوبندکی وجہ سے کوتاہی علاج کے باعث اس مرض میں اضافہ ہی ہوتاچلاگیا۔1926ء میںمکہ مکرمہ کے اندر جب موتمرعالم اسلامی کا دوسرا اجتماع جاری تھاتو آپ کے جسم کابایاں آدھاحصہ ڈیڑھ گھنٹے تک مفلوج رہا۔1928ء میں آپ بغرض علاج ولایت بھی گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔1930ء کی گول میزکانفرنس لندن میں آپ نے بہت جذباتی خطاب کیااورکہاکہ میرے وطن کو آزاد کرو،میں اب غلام قوم میں واپس نہیں جاؤں گا۔چندہی دنوں کے بعد 4جنوری کوآپ داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔آپ کو فلسطین جیسی ارض مقدس میں امانتاََ دفنادیاگیا۔ روح جوہر کویہ خوش خبری ہو کہ اس کی ارض پاک سے غلامی کے مہیب و منحوس کرداروں کے سائے لمبے ہوچکے ہیں اوربس کچھ ہی دیر میں خاور خلافت علی منہاج نبوت طلوع ہواکہ ہوا اوراے روح مقدس تواپنے جسد خاکی کو لے کر اپنے وطن اصلی کی طرف لوٹ آئے گی اور مولانا کی وصیت کے مطابق وہ صحیح معنوں میں آزاداسلامی ریاست میں بہت جلدآسودہ خاک ہوں گے،ان شااللہ تعالی۔