مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا عبدالحفیظ مکی کی رحلت

Moulana Abdul Hafeez and Moulana Saleem

Moulana Abdul Hafeez and Moulana Saleem

تحریر : مفتی خالد محمود ازھر
اللہ والوں کے قافلے تیزی سے ایسے سفرکی طرف رواں دواں ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر دنیا میں نہیں آیا اس دنیا میں ہمیشہ کسی کا قیام نہیں یہ ایک اسٹیشن ہے جہاں سے سٹاپ کے بعد بہرحال روانگی ہے البتہ کسی کا سٹاپ مختصر اور کسی کاقدرے طویل ”موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے ” باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اس دنیا کی ہر شخصیت خواہ وہ کتنی ہی دلکش کتنی پربہار کتنی ہر دلعزیز ہو بالآخر اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے۔عربی کاشعر ہے کہ ”لوکانت الدنیا تدوم لواحدِ ،لکان رسولۖ فیہا مخلد” لیکن عملی زندگی میں یہ مسلم حقیقت ہماری نظروں سے اس طرح اوجھل رہتی ہے جیسے یہ کوئی حقیقت ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے حادثات کے وقوع کے بعد ان کے تسلیم کرنے میں قدرے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے مگر تسلیم کیئے بغیر گذارہ بھی نہیں ۔گذشتہ دنوں عالم اسلام چوبیس گھنٹوں کے دوران دو عظیم سانحات سے دوچار ہوا 15 جنوری کی شام شیخ المحدثین استاذ الاساتذہ شیخ الکل ریئس وفاق المدارس العربیہ پاکستان صدر اتحاد تنظیمات مدارس اور ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کے موئسس ومدیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان اپنے لاکھوں تلامذہ معتقدین کو غمزدہ چھوڑ کر دارالبقاء کی طرف منتقل ہوگئے اناللہ وانا الیہ راجعون۔

یہ عالم اسلام کے لئے عظیم سانحہ تھا حضرت کے وصال سے طبقہ علما یتیم اور مدارس ودینی تحریکات سائبان شفقت سے محروم ہو گئے حضرت کی علمی فقہی دینی تدریسی تحقیقی تصنیفی خدمات کو دیکھا جائے یا تحریکی اصلاحی پہلو کا سرسری جائزہ لیا جائے تو حیرت واستعجاب کی انتہاء نہیں رہتی بیک وقت فقیہ بھی محدث بھی مفسر بھی متکلم بھی مجاہد بھی اور زاہد بھی ایسی جامع الصفات شخصیت کہ زمانہ مثال پیش کرنے سے عاجزہے اسی مناسبت سے دیوان المتنبی کا شعر ذھن میں آرہاہے ”مضت الدھور وما اتین بمثلہ، ولقد اتیٰ فعجزن عن نظرائہہ”(ترجمہ)کہ زمانے گذرگئے میرے ممدوح جیسا کوئی نہیں آیا اور جب وہ آگیا تو زمانہ اسکی مثل لانے سے عاجز۔حضرت مولانا سلیم اللہ خان آفریدی قوم سے تعلق رکھتے تھے آپکے کے آباء واجداد کا تعلق پاکستان کے علاقہ خیر ایجنسی تھا تاہم ہندوستان کی تقسیم سے قبل آپکے خاندان نے یو پی کے ضلع مظفر نگر کی طرف ہجرت کی اور قصبہ حسن پور کو مسکن بنایا حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے شیخ حضرت میں نور محمد ساری زندگی اس گاؤں میں رہے مولانا سلیم اللہ خان 1926 میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم حکیم الامہ حضرت تھانوی کے خلیفہء مجاز حضرت مولانا مسیح اللہ خان کی زیر نگرانی انہی کے قائم کردہ ادارہ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد بھارت میں حاصل کی۔

1942 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے ازہر الہند دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گئے جہاں شیخ العرب والعجم قطب وقت خاتم المحدثین حضرت مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ ودیگر اساطین علم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے 1947 میں امتیازی نمبروں سے سند امتیاز حاصل کی۔آپ حافظ قرآن نہ تھے ایک بارسالانہ تعطیلات کے دوران کچھ سورتیں حفظ کرنے کا شوق ہوا تو اٹھائیس دن کے مختصر وقت میں پورا قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے پہلے مادر علمی جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں اپنے شیخ اول حضرت مولانا مسیح اللہ خان کی زیرنگرانی تدریسی وتنظیمی امور کی انجام دہی کا سلسلہ شروع فرمایا آٹھ برس تک خدمات سرانجام دیں قیام پاکستان کے بعد علامہ شبیراحمد عثمانی نے ٹنڈو الہ یار سندھ میں مرکزی دینی ادارہ قائم فرمایا حضرت علامہ عثمانی کے حکم پر آپ دارالعلوم ٹنڈو الہ یار تشریف لے گئے۔تین سال تک یہاں مسند تدریس کو رونق بخشی بعدازاں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رح کے قائم کردہ دارالعلوم کراچی میں تشریف لے گئے جہاں دس سال تک درس وتد جاری رکھا۔

Jamiat Ulamaa e Islam

Jamiat Ulamaa e Islam

1967 میں جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی جس کے تادم واپسیں مہتمم ومنتظم رہے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے کے قیام سے آپ زبردست موئید ومعاون تھے تاہم 1980 میں آپکو وفاق کا ناظم اعلیٰ اور1989 میں رئیس منتخب کیا گیا آپکے دور نظامت وصدارت میں وفاق المدارس نے ترقی اور کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے دنیا بھر کیلئے پاکستان کے مدارس کا منظم ومثالی نیٹ ورک بہترین اور عمدہ طریقہ امتحانات اور اعلیٰ نصاب کی تشکیل بہترین مثال اور آپ کے عظیم کا رنامے ہیں۔ وفاق المدارس کی ذمہ داری پاکستان کے عظیم ادارے کا اہتمام ملکی وغیر ملکی اسفار کا تسلسل اس کے با وجود جامعہ فاروقیہ کی مسند حدیث پر جلوہ افروز ہو کر درس حدیث اور پھر ماہنامہ الفاروق کی باقاعدہ اشاعت کے ساتھ ساتھ بیس سے زائد جلدوں پر مشتمل صحیح بخاری شریف کی شرح کشف الباری اور مشکوة المصابیح کی شرح نفقات التنقیح آپ کے عظیم کارنامے ہیں جن کا شمار بھی ہم جیسوں کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔71 سالہ دور تدریس میں مسلسل نصف صدی درس حدیث دیا اور شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔اس وقت پورے ملک کے شیوخ حدیث بلواسطہ یا بلاواسطہ آپکے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی حالات پر بھی حضرت کی گہری نظر تھی اور محض تعلیمی تدریسی تصنیی خدمات تک خود کو محدود نہ رکھتے جب پرویزی آمریت کے دوران مدارس پر کڑا وقت آیا تو تمام مسالک کے مدارس کے وفاقوں پر مشتمل اتحاد تنظیمات مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تو اسکی صدارت کا منصب آپکو پیش کیا گیا اور آپنے قیادت کا حق ادا کر دیا۔ جب پرویز مشرف کے سامنے بڑے بڑوں کی سیٹی گم ہوجاتی تھی اور بڑے بڑے رستم پہلوانوں کو واپسی کا راستہ بھول جاتا تھا جو جاتے تھے ن لیگ یا پی پی سے مگر واپسی پر ق لیگ یا پیٹریاٹ بن کر آتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی اس درویش خدامست کی قیادت میں جب علما کرام کا وفد ملاقات کیلئے گیا تو پرویز مشرف نے اپنا فلسفہ جھاڑنا چاہا حضرت نے شان بے نیازی سے فقیرانہ انداز میں میز پر مکا مار کر فرمایا تم ہمیں ملکی مفاد کا سبق مت پڑھائو ہم ملکی مفاد کو تم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور تم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیںحضرت کے اس دلیرانہ جملے کی تالاب پرویزمشرف نہ لا سکا ۔سچ ہے ”،تاج وتخت نہ لشکر وسپاہ میں ہے ،جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے”۔

حضرت کی نماز جنازہ 16 جنوری کو کراچی میں ادا کی گئی جو ملکی تاریخ کا عظیم الشان اجتماع قرار دیا جاسکتا ہے ۔حضرت کی وفات کا سانحہ ابھی تازہ ہی تھا کہ عالم اسلام کو ایک اور عظیم سانحہ سے دو چار ہونا پڑا ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا ذکریا سہارن پوری ثم المدنی کے خلیفہ اجل ، جامعہ صولتیہ ”مکہ مکرمہ ”کے شیخ الحدیث شیخ المشائخ حضرت مولانا الملک عبدالحفیظ المکی کے سانحہ ارتحال کی خبر بجلی بن گری ۔ ایک بار پھر غم واندوہ کی کیفیت طاری ہوگئی ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا محسوس ہوا ۔حضرت مکی عالم اسلام کے عظیم ، علمی ، عملی ،روحانی پیشواء تھے ۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے پوری دنیا میں سرگرم رہتے اور قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں پر مکمل نظر رکھتے ۔انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی امیر تھے جنوبی افریقہ کے شہر ”ڈربن” کے تبلیغی اجتماع سے خطاب کے دوران دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔حضرت کی پہلی نماز جنازہ جنوبی افریقہ کے شہر ”ڈربن ” میں ادا کی گئی جبکہ دوسری نماز جنازہ مسجد نبوی شریف مدینہ منورہ میں ادا کی گئی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔ان ہردو حضرات کی وفات عالم اسلام کیلئے عظیم صدمہ ہے اور موت العالِم موت العالَم کا صحیح مفہوم ان اکابر کی رحلت کی خبر سن کر سمجھ میں آتا ہے ۔قرب قیامت کی علامات میں علماء کرام کا یوں اٹھ جانا بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور امت مسلمہ کو ہر قسم کے آفات و بلیات سے محفوظ فرمائیں ۔(آمین)۔

Mufti Khalid Mehmood

Mufti Khalid Mehmood

تحریر : مفتی خالد محمود ازھر
0300-6381330