مولانا سمیع الحق شہید سے جب بھی لاہور میں ملاقات ہوئی میں نے انہیں ہمیشہ پیا ر ،محبت ،خلوص اور امن کا داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محب وطن شخص پایامولانا سمیع الحق خدمت دین اور خدمت وطن کے میدان میں ایک قابل فخر نامور عالم دین ،مذہبی سکالرز اور نجھے ہوئے سیاستدان تھے جو دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور امیر جمعیت علما اسلام (س) بھی تھے مولانا سمیع الحق2نومبر بروز جمعتہ المبارک 2018ہم سے جدا ہوگئے اناللہ وانا علیہ راجعون ۔ مولانا سمیع الحق بعد از نماز عصر اپنی رہائش گاہ پر آرام فرمارہے تھے کہ نامعلوم افراد نے چھریوں کے وار کرکے انہیں شہید کر دیا مولانا سمیع الحق پاکستان کے موجودہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے شہر اکوڑہ خٹک میں 18 دسمبر 1937کو پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں حاصل کی جسکے بانی انکے والد محترم مولانا عبدالحق تھے اور بعد میں اسی مدرسہ میں بطور استاد بھی خدمات سر انجام دیں 1985سے 1997تک ایوان بالا میں بطور سینٹر بھی خدمات سر انجام دیں آپ افغان طالبان رہنماملا محمد عمر سمیت کئی طالبان رہنماؤں کے استاد بھی تھے نومبر 2011میں پاک افغان بارڈر سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملوں کے بعد آپکی زیر قیادت 40سے زائد دینی اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرکے دفاع پاکستان کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جسکے بعد ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے منعقد کیے گئے اور پھر نیٹو سپلائی کو بھی ایک لمبے عرصہ تک روکے رکھا گیا اور پھر امریکہ نے مجبور ہوکر باقاعدہ معافی مانگی۔
ملک میں جب پولیو کے قطرے پلانے کی سخت مخالفت کی جارہی تھی تو اس وقت مولانا سمیع الحق ہی تھے جنہوں نے 13 دسمبر 2013میں پولیوکے حفاظتی قطروں کی مہم کے حق میں فتوہ دیکر ایک مثبت سوچ کے حامل اور ایک محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا اور پھر جب اس وقت کی حکومت نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوششیں کی تو اس کے خلاف بھی مولانا سمیع الحق نے ہی آواز بلند کرکے اسکی بھر پور مخالفت کرکے حکومت کی ان کوششوں کو ناکام بنایا تحفظ نظریہ پاکستان کی بات ہو یا مقبوضہ کشمیر اور افغانسان جیسے اسلامی خطوں میں امن کا معاملہ آپ نے اپنا موقف ہمیشہ ببانگ دہل واضح کیا۔ مولانا سمیع الحق پاکستان سے محبت کرنے والے ایسے عالم دین تھے جنہوں نے ہمیشہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حصول کے لیے کوششیں کی جنہوں نے کبھی بھی عہدوں کا لالچ نہیں کیا وزارتیں ہمیشہ انکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں مگر انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ اور سودے بازی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ شہید مولانا سمیع الحق پاکستان کے چند بااصول ترین مذہبی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ مولانا سمیع الحق 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھے۔
جب نوازشریف اقتدار میں آئے تومولانا فضل الرحمن کے برعکس مولانا سمیع الحق نے وزارتیں لینے کی بجائے نوازشریف سے شریعت بل کے نفاذ کا مطالبہ کردیا اور انکار کی صورت میں اتحاد سے الگ ہو کر تحریک چلانے کی دھمکی دے دی۔جسکے بعد نوازشریف نے مولانا کو قابو کرنے کیلئے ایک خاتون کے ذریعے مولانا کی کردار کشی کا سکینڈل بنوایا لیکن اللہ تعالی نے مولانا کو عزت دے رکھی تھی، اس لئے نہ صرف وہ سکینڈل اپنی موت آپ مرگیا بلکہ 1995 میں جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو مولانا کو ان کے استاد کی حیثیت سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ 90 کی دہائی میں مولانا سمیع الحق کا شمار طاقتور ترین عالمی مذہبی رہنماؤں میں ہونے لگ گیاتھا مولانا سمیع الحق کی سیاست اصولوں پرشروع ہوتی تھی اور اصولوں پر ہی ختم ہوتی تھی کبھی بھی ذاتی فائدے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایاایک دفعہ نوازشریف سے علیحدہ ہوئے اور پھر ساری عمر دوبارہ اس کی گلیوں کا رخ نہ کیا۔
شہید مولانا نے اپنے آخری دس سال میں جس سیاستدان کو سب سے قریب اور سب سے زیادہ عزیز رکھا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان تھا۔تحریک انصاف کی خیبرپختون حکومت نے مولانا کو وہ احترام دیا جو کبھی دیوبند علما کے دھڑے بھی نہ دے سکے۔ حتی کہ مولانا سمیع الحق کو اس سال فروری میں تحریک انصاف نے سینیٹر کیلئے نامزد بھی کیا لیکن اس وقت جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے ن لیگ، اے این پی اور پی پی کی قدم بوسی کرکے پاکستان کے سب سے بہترین مذہبی رہنما کو سینیٹر بننے سے روک دیا۔عمران خان کے سچے مسلمان ہونے کے حق میں سب سے بڑی گواہی شہید مولانا سمیع الحق نے اپنی زندگی میں ہی دے دی تھی، عمران خان نے جس مذہبی شخصیت کا دل سے احترام کیا، وہ شہید مولانا سمیع الحق ہی تھے۔
مولانا سمیع الحق نے پوری زندگی اسلام اور پاکستان کے دفاع کیلئے بھرپور کردارادا کیا اور جب بھی کبھی قوم پر مشکل وقت آیا انہوں نے ملک بھر کی سیاسی و مذہبی قیادت کو جمع کیا اور تحریک چلاتے ہوئے قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ ان کا دل ہمیشہ پاکستان کیلئے دھڑکتا تھا۔ ان کی شہادت سے صرف پاکستانی قوم ہی نہیں پوری امت مسلمہ کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔مولانا سمیع الحق ایک دیانت دار ،امن پسند ،مخلص ،درد مند و محب وطن شخصیت تھے مولانا سمیع الحق 80برس سے زائد کی عمر پاکر شہادت کے رتبے پر فائض ہوگئے جو انکی دلی اور دیرینہ خواہش تھی انکی شہادت پر پوری قوم انکی جدائی پر سوگوار ہے اور انکی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا گو ہے۔