راولپنڈی (جیوڈیسک) مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا جب کہ زیر حراست ملازمین نے دورانِ تفتیش بتایا کہ دو افراد ملنے آئے تھے جو مولانا صاحب کے جاننے والے تھے اور انہوں نے مولانا سمیع الحق سے اکیلے میں بات کرنے کی درخواست کی۔
جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ ان کے بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں تھانہ ایئرپورٹ میں دفعہ 302 کے تحت درج کرلیا گیا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مولانا سمیع الحق پر حملہ شام ساڑھے 6 بجے ہوا اور ان کے پیٹ، دل، ماتھے اور کان پر چھریوں کے 12 وار کیے گئے۔
فارنزک ماہرین اور پولیس کے تفتیشی افسران نے راولپنڈی میں مولانا سمیع الحق کے گھر سے شواہد اکٹھے کرلیے ہیں۔
تفتیشی افسران نےمولانا سمیع الحق کا فون، چشمہ اور دیگر چیزیں بھی قبضے میں لے کر فنگر پرنٹس حاصل کرلیے ہیں جبکہ تفتیش کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لی جارہی ہے۔
پولیس نے فارنزک جائزے کے لیے مولانا سمیع الحق کے موبائل فون کا ڈیٹا بھی حاصل کرلیا ہے۔
پولیس حکام کو مولانا کے قتل میں ایک سے زیادہ افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ہے اور پوچھ گچھ کے لیے مولانا کے دو ملازمین کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کے زیر حراست ملازمین نے تفتیش میں بیان دیا ہےکہ مولانا صاحب سے دو افراد ملنے آئے جو مولانا کے جاننے والے تھے، دونوں افراد اس سے قبل بھی مولانا سمیع الحق کے پاس آتے تھے، دونوں افراد نےمولانا صاحب سے درخواست کی کہ آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔
ذرائع کے مطابق ملازمین نے بتایا کہ صاحب نے انہیں بازار سے کھانے پینے کی اشیاء لانے کے لیے بھیج دیا، 15 منٹ میں واپس آئے تو مولانا صاحب خون میں لت پت تھے اور دونوں افراد موقع پربھی موجود نہیں تھے۔