حکم دیا گیا ” رَبّ کی رحمت سے مایوس نہ ہو”، مایوس ہم نہیں مگر اندر بیٹھاشک کا شیطان وسوسوں کے تانے بانے بُنتا چلا جا رہا ہے۔ قطار اندر قطار جنم لینے والے سوالات وسوسوں کی چلچلاتی دھوپ میں اذہان و قلوب کو جھلسا رہے ہیںاور اندیشوں کے سیاہ ناگ چہار سُو اپنے پھَن پھیلائے کھڑے ہیں۔ ایسے میں طالبان کا یک طرفہ اعلانِ جنگ بندی آشاؤں کی گھنی چھاؤں محسوس ہوتا ہے۔ اِس دل خوش کُن اعلان نے ایسے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے جنہوں نے پوری قوم کو بے چین و بیقرار کر دیا ہے۔ خُدا کرے کہ ہمارے یہ ”اندیشہ ہائے دُور و دراز” سرے سے غلط اور بے بنیاد ہوں اور طالبان کے اِس اعلان کے بعد وطنِ عزیز میں امن و سکون کی فاختائیں ڈیرہ جما لیں۔ ایسا ہونا ممکنات میں سے ہے، شرط مگر یہ کہ نیتوں میں فتور نہ ہو۔ ذہنی خلجان کا سبب بننے والے سوالات یہ ہیں کہ کیا طالبان کے تمام گروہ اِس جنگ بندی پر عمل کریں گے؟۔ کیا طالبان نے آئینِ پاکستان کو مان لیا ہے؟۔ کیا نفاذِ شریعت کا مطالبہ ختم ہو گیا ہے؟۔ کیا طالبان قیدیوں کی رہائی سے پیچھے ہٹ گئے؟۔ اور کیا طالبان واقعی ہتھیار پھینک کر مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئے؟۔
یہ تو طے ہے کہ طالبان کے تمام گروہ اس جنگ بندی پر ہر گز عمل نہیں کریں گے۔ وجہ یہ کہ حکومت، طالبان کے حامی علمائے اکرام اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ طالبان کے بہت سے گروہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کے ایسے کھلونے ہیں جن کا کام ہی پاکستان میں افراتفری پیدا کرنا ہے۔ یہ دہشت گرد مذاکرات کے حامی طالبان کے زیرِ اثر بھی نہیں۔ اِس لیے فوری طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں البتہ اِن میں کمی ضرور ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دورانِ مذاکرات یہ فیصلہ کون کرے گا کہ دہشت گردی کی کارروائیاں مذاکرات کے حامی طالبان کی طرف سے ہو رہی ہیں یا دہشت گردوں کی طرف سے؟۔ کیا دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے بعد شکوک و شبہات جنم نہیں لیں گے؟۔ حکومت نے تو واضح اعلان کر دیا ہے کہ جہاں بھی حملہ ہوا وہاں جواب دیا جائے گا اسی لیے طالبان کے یک طرفہ اعلان کے باوجود خیبر ایجنسی میں گَن شِپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضائی کارروائی کرکے ”مُلا تمانچی” کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا طالبان نے آئینِ پاکستان کو تسلیم اور نفاذِ شریعت کا مطالبہ ختم کر دیا؟۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ طالبان کی طرف سے کی گئی جنگ بندی کا اعلان غیر مشروط ہے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے واضح طور پر کہا ہے کہ اُن کی مذاکراتی کمیٹی نے حکومت کو جو تجاویز دی تھیں، اُن کا مثبت جواب دیا گیا اور عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی گئی اسی لیے جنگ بندی کی گئی۔ یہ امراب صیغۂ راز میں نہیں کہ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد کے ساتھ خفیہ اجلاس ہوتے رہے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی مولانا سمیع الحق نے یہ اعلان کیا کہ دو، تین دِن کے اندر قوم کو خوش خبری ملے گی۔ مذاکرات میں ”ڈیڈ لاک” پیدا ہونے سے پہلے طالبانی شرائط یہ تھیں کہ طالبان کے ریاستی اداروں کی قید میں طالبان کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو رہا کیا جائے، جنوبی وزیرستان سے فوج نکالی جائے اور شریعت کا نفاذ کیا جائے حکومت اورایجنسیاں پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہیں کہ اُن کی قید میں کوئی بچہ، بوڑھا یا عورت نہیں اِس لیے طالبان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جا سکتا۔
Pakistan Army In Waziristan
وزیرستان سے فوج نکالنے کی گنجائش اِس لیے نہیں کہ طالبان خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ کچھ طالبانی گروہ اُن کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور وہ اپنی مَن مانیاں کرتے ہیں۔ ایسے دہشت گرد گروہوں کی سَرکوبی کرنے کے لیے فوج کا وزیرستان میں رہنا ضروری ہے اور درپیش صورتِ حال میں حکومت اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کر سکتی۔ نفاذِ شریعت کا اعلان آئینِ پاکستان کے ساتھ منسلک ہے اور سوائے طالبان کے سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا آئین ایک مکمل اسلامی آئین ہے بشرطیکہ اِس کا مکمل نفاذ کر دیا جائے۔ جبکہ طالبان ہمارے آئین کو مکمل اسلامی آئین ماننے کے لیے سرے سے تیار ہی نہیں ۔اِس لیے کہا جا سکتا کہ نہ تو طالبان نے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر آتی ہے کیونکہ طالبان اپنی شرائط پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیںاور حکومت کے لیے اِن شرائط پر عمل در آمد ممکن نہیں۔
حیرت یہ ہوتی ہے کہ طالبان نے جب بھی صلح جوئی کی بات کی شُہداء کی لاشوں پر کھڑے ہو کر کی ۔یکم مارچ کو خیبر ایجنسی میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور بارہ خاصا داروں کو شہید کرکے جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ۔اِس سے پہلے 23 ایف سی اہلکاروں کے گلے کاٹ کر جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اِس اعلانِ جنگ بندی کے بعد مولانا سمیع الحق صاحب کہتے ہیں کہ حکومت مثبت کردار ادا کرے۔ عرض ہے کہ حکومت نے تو ہمیشہ مثبت کردار ہی ادا کیا ہے اور بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب کی شدید ترین خواہش بھی یہی ہے کہ معاملات کشت و خون کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب نے طالبان کے جنگ بندی کے اعلان کے فوراََ بعد چیف آف آرمی سٹاف کو حملے روکنے کے لیے کہا اور وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے طالبان کے خلاف فضائی کارروائیاں روکنے کا اعلان بھی کر دیا۔
یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں مذاکرات ہی کی حامی تھیں لیکن طالبان کی پُر تشدد کارروائیوں کے بعد تحریکِ انصاف سمیت تمام جماعتیں ذہنی طور پر طالبان کے خلاف ایکشن کے لیے تیار ہو گئیں لیکن طالبان نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کرکے دھماکہ کر دیا۔ اب جب کہ طالبان نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے تو سوائے ایم کیو ایم کے سبھی جماعتوں نے بیک زبان اِس جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایم کیو ایم کی منطق چونکہ ہمیشہ انوکھی اور نرالی ہوتی ہے ۔اِسی نرالی منطق کے تحت ایم کیو ایم کے جنابِ فاروق ستار کہتے ہیں کہ طالبان کے جنگ بندی کے اعلان پر وہ افسردہ ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ اُنہیں یہ بھی دُکھ ہے کہ حکومت نے اُنہیں اندھیرے میں رکھا کیونکہ اُن کے خیال میں حکومتی کمیٹی نمائشی تھی اور سبھی فیصلے کمیٹی سے بالا بالا ہو رہے تھے۔ ایم کیو ایم کا نقطۂ نظر تو تبھی سامنے آئے گا جب اُس کے قائد الطاف حسین صاحب کوئی بیان دیں گے البتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اسے طالبان کا مدبرانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اے پی سی بلائے۔
در اصل مولانا صاحب کا المیہ یہ ہے کہ مذاکرات کے حامی اور فعال کردار ادا کرنے والے مولانا سمیع الحق کے مولانا شدید مخالف ہیں اور محترم عمران خاں صاحب بھی اُنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اِس لیے مولانا صاحب کی شدید خواہش ہے کہ یہ دونوں اصحاب پیچھے ہَٹ جائیں اور مولانا صاحب فعال کردار ادا کرکے یہ تمغہ اپنے گلے کی زینت بنا لیں۔ مولانا صاحب کی اِس خواہش کا احترام بجا ، سوال مگر یہ ہے کہ کیا طالبان اُن کا اُسی حد تک احترام کرتے ہیں جس حد تک کہ مولانا سمیع الحق کا ؟۔ اور کیا یہ مناسب ہو گا کہ جب تمام تر اندیشوں اور وسوسوں کے باوجودمذاکراتی عمل کے شروع ہونے کے کچھ امکانات نظر آنے لگے ہیں تو مولانا اپنی سیاسی چالوں سے اُس روزن کو ہی بند کر دیں جہاں سے اُمید کی ہلکی ہلکی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔