پشاور (جیوڈیسک) جمعیت علمائے اسلام س کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ قبل ازیں ان کی نماز جنازہ سخت سکیورٹی کے حصار میں شمال مغربی شہر نوشہرہ میں ادا کی گئی۔
’ فادر آف افغان طالبان‘ کے نام سے مشہور مولانا سمیع الحق کی تدفین کر دی گئی ہے۔ اکیاسی سالہ مولانا سمیع الحق کو گزشتہ روز راولپنڈی میں ان کے گھر پر چاقو کے وار کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ سمیت متعدد اہم مذہبی اور سیاسی شخصیات بھی شریک ہوئیں۔
دریں اثناء پولیس نے ان کے بیٹے حامد الحق کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج کرتے ہوئے تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق تفتیش کاروں نے ان کے گھر سے متعدد شواہد جمع کر لیے ہیں۔
اکیاسی سالہ مولانا سمیع الحق جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ بھی تھے۔ وہ پاکستان کی ایوانِ بالا سینیٹ کے رکن بھی رہے، جب کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد بھی بنایا تھا، جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے کیے۔
سمیع الحق جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے اتحاد پاکستان ڈیفنس کونسل کے بھی معروف رہنما رہے ہیں۔ انہیں آمر صدر جنرل ضیاء الحق کے بھی قریب سمجھا جاتا تھا جب کہ عالمی جہادی حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ان کے ہزاروں چاہنے والے اس قتل پر سوگ کی سی کیفیت میں ہیں لیکن کئی ناقدین کے خیال میں مولانا کی فکر و فلسفے نے پاکستان اور افغانستان کو نقصان پہنچایا۔ معروف انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے مولانا کی ہلاکت پر تاثرات دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سب سے پہلے تو میں ان کے قتل کی بھر پور مذمت کرتی ہوں۔
کسی بھی شخص کا اس طرح قتل کیا جانا قابلِ مذمت ہے لیکن ہمیں یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا نے ساری زندگی ایسے لوگوں کی سر پرستی کی جن کو انسانی حقوق پر کوئی یقین نہیں تھا۔ وہ ایسی تنظیموں کے حامی رہے، جنہوں نے پاکستان اور افغانستان میں نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ دیا بلکہ طاقت کے بل بوتے پر رجعتی پالیسیاں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی، جس سے ان دونوں ممالک کو بہت نقصان پہنچا اور معاشرے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تفریق بڑھی۔ ان کے قتل کے بعد ملک میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔‘‘