مولانا طاہر القادری کا انقلاب

Maulana Tahir-ul-Qadri

Maulana Tahir-ul-Qadri

مولانا طاہر القادری ایک دفعہ پھر ”پُرامن” انقلاب لانے پاکستان پہنچ چکے ہیں لیکن انقلاب تو نام ہی ایک نظام کو ختم کرکے دوسرے نظام کو لانے کا ہوتا ہے جو ہمیشہ خون آلود ہوتا ہے ۔پھر پتہ نہیں مولانا کی ”پٹاری” سے کونسا ایسا انقلاب ظہور پذیر ہونے والا ہے جس میں ایک پتا بھی نہیں ہلے گا اور انقلاب آ جائے گا مولانا کو اگر یہ خوش فہمی ہے کہ وہ پاکستان کے ”امام خمینی” ہیں تو اُنہیں علم صہونا چاہیئے کہ ایران کا بچہ بچہ امام خمینی پر جان نچھاور کرنے کو تیار تھا جبکہ مولانا صاحب کا حلقۂ اثر اتنا محدود ہے۔

صرف ایک بار عام انتخابات میں اُس وقت حصہ لیا جب اُنہیں ایک آمر کی بھرپور پُشت پناہی بھی حاصل تھی اِس کے باوجود بھی وہ بمشکل اپنی سیٹ ہی حاصل کر پائے۔ طاہر القادری صاحب میاں برادران کی طرف سے قوم کو دیا گیا ایک ایسا تحفہ ہیں جسے وہ خود بھی بھگت رہے ہیں اور قوم بھی ۔مولانا صاحب کے ماضی کو کریدنے سے احتراز کرتے ہوئے مولانا سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا اُنہیں خطرات میں گھرے پاکستان کی سلامتی کا رائی کے دانے کے برابر بھی احساس ہےَ؟۔ اِس وقت جب پوری قوم دہشت گردی کے خلاف یکسؤ تھی اور اللہ کے سپاہی شوقِ شہادت میں دہشت گردوں کے خلاف مصروفِ پیکار ، مولانا اپنے کرتب دکھانے تشریف لے آئے۔اُدھر ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی با کمال جو مولانا کو منصورِ حقیقت ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔اہالیانِ فکر و نظر اور صاحبانِ بصارت و بصیرت میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو جھوٹ کی اِس اُگتی فصل کی قطع و برید کے لیے نعرۂ مستانہ بلند کر سکے ۔سبھی اپنی تمناؤں کے اسیر اور نا روا کو روا کہنے میں مگن۔

جب بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شبِ تارچھُٹنے کو ہے اور دورِ گراں خوابی کے انجام کا وقت قریب آن لگا تبھی کچھ شعبدہ باز مکر و ریا کی ڈُگڈگی بجاتے آن پہنچتے ہیں اور ہم بھی وہ سدھائے ہوئے بندر جوہر صاحب ِ مکر و ریا کی ڈُگڈگی پر ناچنے لگتے ہیں ۔ابھی ایک سال پہلے نواز لیگ کو بھرپور مینڈیٹ سے اسی قوم نے نوازا اور ایک سال میں نواز لیگ نے جو کچھ کرکے دکھایا وہ عمومی توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا لیکن پھر پتہ نہیں اچانک کیا ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا پر نواز لیگ کے خلاف بھرپور مہم شروع کر دی گئی اور با لآخر میاں نواز شریف صاحب کو بھی یہ شکوہ کرنا پڑا کہ چند نیوز چینل کوئی اور ہی دنیا دکھا رہے ہیں۔

محترم عمران خاں کی تحریکِ انصاف سے لاکھ اختلافات کے باوجود یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ انتخابات میں نواز لیگ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ تحریکِ انصاف کو ملے ، ایک صوبے میں اُس کی حکومت ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اُن کا قائدِ حزبِ اختلاف۔ تحریکِ انصاف اگر کوئی احتجاجی تحریک شروع کرتی ہے تو اُس کا کچھ جواز بھی بنتا ہے لیکن مولانا طاہر القادری ؟۔مولانا صاحب نے انتخابات میں حصّہ لیا نہ وہ موجودہ نظام کو تسلیم کرتے ہیں۔انتخابی سیاست سے وہ کوسوں دور بھاگتے ہیں اور اُن کی زبان پر ہر وقت انقلابی سیاست کا ورد جاری رہتا ہے ۔کینیڈین حکومت سے وفاداری کا حلف تو وہ اٹھا چکے لیکن اپنی ”جنم بھومی” کا اُنہیںبقدرِ قطرۂ شبنم بھی احساس نہیں ۔اُنہیں پاکستان آنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ وہ پاکستان کے ”بھی” شہری ہیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا کسی ایک شخص کی تمناؤں کی تکمیل کی خاطر پورے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جا سکتا ہےَ ؟۔سوال یہ بھی ہے کہ آخر مولانا صاحب کا ایجنڈا کیا ہے اور اُن کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے ؟۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمدکا یہ سوال بالکل درست ہے کہ” طاہرالقادری لاہور کی بجائے اسلام آباد کیوں اترنا چاہتے ہیں ”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا ”کوئی غلط فہمی اور شک و شبہ میں نہ رہے کہ غیر آئینی طور پر حکومت گرانے کا دعویٰ اور عزم رکھنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آئے گا ”۔قانون کو حرکت میں آنا ہی چاہیے کہ اسی میں قومی سلامتی مضمر ہے لیکن یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی سانحہ دوبارہ رونما نہ ہونے پائے۔

Pakistan

Pakistan

مولانا صاحب اپنے انقلاب میں 11 لاشوں کا خون شامل کرکے پاکستان تشریف لائے ہیں اور اُن کی تو شدید خواہش ہو گی کہ اُنہیں مزید لاشوں کا ”تحفہ” ملے لیکن اگر خُدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو نواز لیگ کی بنیادیں توہلیں گی ہی ، قومی سلامتی کو بھی شدید خطرات لا حق ہو جائیں گے ۔الیکٹرانک میڈیا کی آنکھ نے جو کچھ دکھا یا اُس کے مطابق تو راولپنڈی اسلام آباد کی پولیس انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتی رہی جبکہ دوسری طرف مولانا صاحب کی ڈنڈا بردار فوج ، جس میں خواتین بھی شامل تھیں ، پولیس کی دوڑیں لگواتی رہی ۔مولانا کے اِن مرد و زن پیروکاروں کی مزاحمت کی بدولت پولیس کے 30 جوان شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے ہیں جبکہ مولانا کے عقیدت مندوں کو خراش تک نہیں آئی ۔میری ناقص رائے میں حکومتِ وقت نے مولانا طاہر القادری کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔

اگر اُنہیں فری ہینڈ دے دیا جاتا تو کوئی قیامت نہ ٹوٹ پڑتی ۔جب حکومت اچھی طرح سے جانتی ہے کہ چوہدری برادران اور شیخ رشید جیسے راندۂ درگاہ سیاست دانوں کے سوا کوئی بھی مولانا کی تحریک کا حصّہ بننے کو تیار نہیں تو پھر اتنی بوکھلاہٹ کیوں؟۔

حکومت نے بہت اچھا کیا جومولانا کے طیارے کا رُخ اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑ کر اُس شَر سے قوم کو محفوظ کر دیا جو مولانا صاحب پھیلانا چاہتے تھے ۔ہر صاحبِ دل پاکستانی یہی سوچ رہا تھا کہ راولپنڈی سے لاہور تک کا زمینی سفر انتہائی خطر ناک ہو گا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جس جنگ میں ہم مبتلاء ہیں، وہ کسی بارڈر پہ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں لڑی جا رہی ہے اور مولانا صاحب جنہوں نے امریکی اور یورپی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے طالبان کے خلاف کئی صفحات پر مشتمل فتویٰ جاری کر رکھا ہے، وہ اِس زمینی سفر میں طالبان کا آسان ترین ٹارگٹ ہونگے۔ مولانا تو خیر بُلٹ پروف اور بم پروف گاڑی میں ہی ہوتے لیکن اُن کے ہزاروں ہمراہیوں کی جانوں کو بہر حال خطرات لاحق ہوتے اور یہ بھی طے ہے کہ اگر خُدا نخواستہ ایسا کوئی خود کش حملہ ہو جاتا تو مولانا صاحب نے اِس کاذمہ دار بھی حکومت کو ہی ٹھہرانا تھا۔

وہ تو پہلے ہی حفظِ ما تقدم کے طور پر یہ اعلان فرما چکے ہیں کہ میاں برادران دہشت گردوں کے ساتھی ہیں اور اُن پر دہشت گرد حملہ کروایا جا سکتا ہے اِس لیے فوج اُن کی سکیورٹی سنبھالے۔حکومت کے طیارے کا رُخ موڑنے کے حکیمانہ اقدام سے مولانا کا یہ” منصوبہ” بھی ناکام ہو گیااور فی الحال شَر پھیلنے سے تورُک گیا ہے لیکن مولانا صاحب نے طیارے سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب کے مطابق مولانا کا طیارے سے باہر سے انکارغیر ملکی طیارے کو ہائی جیک کرنے کے مترادف ہے۔

مولانا کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں حکومت پر اعتماد نہیں، وہ اپنے گھر جانے کو تیار ہیں لیکن فوج کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ۔ڈاکٹر رحیق عباسی حکومت کا پیغام لے کر طیارے میں پہنچ چکے ہیں ۔فی الحال تو مولانا اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگرحکومت نے مولانا کو اسلام آباد کی بجائے لاہور ایئر پورٹ پر پہنچا دیا ہے تو انشاء اللہ گھر بھی پہنچا ہی دیا جائے گا۔

Professor Riffat Mazhar

Professor Riffat Mazhar

تحریر:پروفیسر مظہر