تحریر: فرید ساجد لغاری یہ ہم جو سب میں تری خو تلاش کرتے ہیں خود اپنے کرب کے پہلو تلاش کرتے ہیں وہ قحطِ اشک ہے اس بار دشت ہجراں میں سب اپنی آنکھ میں آنسو تلاش کرتے ہیں ہوائے شہر سے پوچھو ہم اُس کے دامن میں ترے لباس کی خوش بُو تلاش کرتے ہیں ………
خود اپنی ذات کے محبس سے بچ نکلنے کو یوں شعر و لفظ کا یہ مشغلہ ضروری ہے رسومِ ترکِ روابط کے بعد بھی لوگو یہ آج مجھ پہ کھلا رابطہ ضروری ہے ………
اب اُس سے بھاگ کے جاؤں تو کس طرف جاؤں وہ میری نیند مرے رتجگوں میں رہتا ہے ٹھہر گئی کوئی صورت چراغ آنکھوں میں وہ شخص آنکھوں کی ان پتلیوں میں رہتا ہے
یہ دلنشین و دلکش اوراثرانگیز ،جدید شعری نظام اورلسانی آہنگ کے ساتھ ساتھ طبیعت سے آبشارکی مانندرواںدواں،مرصّع اورمزیّن اشعارجو دل ودماغ کومسحورکرلیتے ہیں ایمان ہے ایمان قیصرانی کے ہیں۔
ایمان قیصرانی زرخیزدھرتی دیرہ غازیخان کی نژاد اورقیصرانی خانوادے کی چشم وچراغ ہیں۔جس نے بہ حیثیت رحمت بشیراحمدعاجز قیصرانی کے علمی وادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔آپ نے ابتدائی تعلیم انگلش پبلک ہائی سکول چوک بہادر،رحیم یارخان سے حاصل کی۔ایف ۔ایس۔سی کا امتحان گورنمنٹ گرلزکالج رحیم یار خان سے پاس کیااورگریجویشن اورایم ۔اے کاامتحانات ”بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتان” سے پاس کیے۔بعدازاں پاکستان انٹرنیشنل سکول وکالج طائف،سعودی عرب میں درس وتدریس کے شعبہ سے منسلک رہیں اس بنتِ بلوچ نے تدریسی مہارت اورپیغمبرانہ پیشے سے فطری مناسبت کے سبب جوہرِکامل دکھاکربہ حیثیت بہترین معلّمہ پانچ بارگولڈمیڈل حاصل کیاجوکہ ایک ریکارڈ ہے۔
بشیراحمدعاجز مرحوم حمدونعت کے بلندپایہ شاعرتھے۔اُن کاحمدیہ اورنعتیہ کلام حسنِ تغزّل سے روشن وتاباں ہے۔یوں سمجھیے کہ!ایمان قیصرانی کی تربیت علمی وادبی اورفکری ماحول میں ہوئی ۔ایمان قیصرانی نے فرسٹ ائیر سے شعرکی مشق شروع کی ۔ان کے گھرکاماحول شعری ریاضت کے تمام اسباب کے ساتھ ان کے شعری ایمان اورمحرک کومحیط کیے ہوئے تھا۔اردو غزل کی مٹھاس ،اثرپزیری ،تغزّل کے اسرارورموزاورحزن وملال کی آنچ ان کی اجتماعی زندگی کی برکتوں اور رحمتوں کے لیے کافی تھی۔ایمان کاادبی رُجحان اورشعری تصوّر اکائی کی صورت میں متشکل ہوتاگیا۔بقول فراق گورکھ پوری آج تک صبحِ ازل سے وہی سنّاٹا ہے عشق کا گھر کبھی شرمندۂ مہماں نہ ہوا
Eman Qesrani
ایمان قیصرانی کی شاعری میں حس کی رنگارنگی کی موجودگی تمثیلِ آئینہ بکف ہے۔ان کی شاعری کاکینوس وسیع ہے۔ جس میں ایمان کے اطراف میں پھیلی ہوئی زندگی کے نقوش اور خلقِ خدا کے دکھوں ،خوابوں،اُمیدوںاورآرزوؤں کابیان نہایت اخلاص اوردردمندی سے نمایاں ہیں۔ان کے شعری سفرمیں ڈاکٹرانوار، نجیب جمال،روبینہ ترین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرعاصی کرنالی مرحوم کے ادبی لیکچران کی شاعری میں نکھارپیداکرنے میں ممدّ ومعاون ثابت ہوئے ہیں۔ایمان اپنے زادِ سفراورچراغِ راہ کے حوالے سے یوں گویاہوتی ہیں۔
یہ ایک قلم ، ایک بیاض ، ایک مصلّیٰ مت دیکھ حقارت سے مرا زادِ سفر ہے
قلم اوربیاض کی دلدادہ اس شاعرہ کے دوشعری مجموعے موسوم بہ ”کوئی میری چاہ میں جل بجھا”اور”میری یاد آئے گی”طباعت کے تمام دھنک رنگوں سے آراستہ ہوکر علمی وادبی حلقوں سے دادِتحسین وصول کرچکے ہیں۔ان دونوں مجموعوںکی صورتِ حال دیگرگوں ہے۔(یعنی ان دونوں مجموعوں پرہراہلِ فکرونظر استغاثے کا حق رکھتاہے)لہذا بلاتاخیر ”کوئی میری چاہ میں جل بجھا” اور”میری یادآئے گی ” پر پہلاادبی استغاثہ راقم الحروف نے دائرکیا۔دعویٰ یہ تھا کتاب ”کوئی میری چاہ میں جل بجھا”ضخامت ١٥٢صفحات ،سن اشاعت ٢٠٠٨ء کے تمام مشمولہ کلام کو اسی ترتیب سے کتاب ”میری یاد آئے گی ” میں شائع کیا گیا ہے ۔اس طریقہ سے دومجموعوں کا منظرِ عام پرآناادبی دنیامیں ناقابلِ فہم اورتشہیرکا غلط ذریعہ ہے۔کیونکہ چالیس صفحات کے اضافے سے کوئی دوسرا مجموعہ خوابِ عبث ہے۔
یہ کوئی عام ادّعانہ تھا ایسی صورتِ حال میں بڑے بڑوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔احساسِ ندامت طاقتِ گویائی چھین لیتاہے۔لیکن ایمان قیصرانی نے سوسائٹی میں سراٹھا کے چلنے کا تہیّہ کررکھاہے۔وہ معزّزعدالت میںبقائمی حواسِ خمسہ کے ساتھ حاضرہوئی اوریہ بیان ریکارڈ کرایا۔
”حضورِوالامیں بسلسلہ روزگارسعودی عرب مقیم تھی ۔جب مختصرچھٹی پرپاکستان آئی توکتاب شائع کرانے کا عزمِ صمیم بھی ساتھ لائی تھی۔کتاب کی اشاعت کا معاہدہ مؤقّر ادارہ ”خزینہ علم وادب ”لاہورسے ہوا تومیں نے معاہدہ کے تحت واجب الادا رقم یک مشت جمع کرادی ۔پھرمختصرچھٹیاں گزارکرمیں اپنے فرائضِ منصبی نبھانے کے لیے واپس سعودی عرب پہنچ گئی ۔چندماہ تک مذکورہ ادارہ کے سربراہ سے موبائل فون پرکتاب کے حوالے سے گفت وشنید ہوتی رہی۔پھر انھوںنے اپناموبائل نمبرتبدیل کرلیاایک سال بعد جب میری مراجعت پاکستان ہوئی توحالت جوں کی توں تھی ۔ان حالات میں ایک جواں سال شاعرہ کیاکر سکتی تھی۔بہ مجبوری ایں میں نے ایک دوسرے ناشر جناب فیصل رفیق بیگ سے اشاعتِ کتاب کامعاہدہ کیااورکتاب کانام ”کوئی میری چاہ میں جل بجھا”سے بدل کر”میری یاد آئے گی ” کاانتخاب کیا۔کچھ اضافی غزلیں اورنظمیں بھی شامل کردیں گویا کتاب کی ضخامت ١٩٢صفحات ہوگئی۔جب مؤخّرالذکرمجموعہ شائع ہوگیا تومیں نے متذکرةالصدرادارہ سے رقم واپسی کامطالبہ کیا ۔حق تویہ تھاکہ وہ رقم واپس کرتے لیکن انھوں نے رقم کی واپسی کے بجائے ”کوئی میری چاہ میں جل بجھا”چھاپ کربلٹی کرادی۔جب ہم نے بنڈل کھولا تو کتاب پر سن اشاعت ٢٠٠٨ء درج تھا۔یہ سب پبلشرکی کاروبای بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔میں نے یہ سب اپنی ذاتی تشہیر کے لیے نہیں کیا۔دیکھیے !اگرمیں نے یہ قصداًکیاہوتا تو دونوں کتابوں کاانتساب اورعرضِ حال ایک سا نہ ہوتا۔”
Honesty
جواب دعویٰ جان دار تھا گویا وہ اس الزام سے بری ہوگئیں۔ کرسی عدل پر براجمان قاضی نے ایمان کو ان کی ایمان داری کی داد دی۔ادارہ ”خزینہ علم وادب”لاہورکی یہ بددیانتی ایمان کے ادبی قدوقامت پراثرانداز نہ ہوسکی۔اب کے راقم بہ حیثیت مبصّر کتاب ” کوئی میری چاہ میں جل بجھا” یا” میری یاد آئے گی ” پر تبصرہ کرے مقصودمحض ایمان قیصرانی کی بے ساختہ اورفطری شاعری کا تذکرہ ہے۔کیونکہ ایمان علمی وادبی حلقوں میں صرف معزّز اور معتبرہی نہیں بل کہ وہ ادبی منظرنامے کوافق تابہ افق اپنے نئے اسلوبِ بیاں ،رنگِ شاعری اور شعریت کی رنگارنگی سے محیط کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشاہیراہلِ علم شخصیات نے کتاب ”میری یاد آئے گی”کی تقریظ نگاری میں کشودوبست سے ہٹ کر غیرجانب دارانہ تاثرات چھوڑے ہیں۔ عاصی کرنالی رقم طرازہیں۔
”میرے حاصلِ مطالعہ کی حد تک یامیرے جائزہ کے نکتۂ نظرسے تصنیف کانام دیکھیے!”میری یاد آئے گی”یہ جملہ ہی ایمان قیصرانی کی راہِ تخلیق کومتعین کرتاہے۔محبت اوررومان آمیز شاعری میں بھی حسرت ،محرومی، اضطراب ،اشتیاق،ہجر،نارسائی اوردوبارہ ملنے کی آرزواس اندازفکرنے ایمانقیصرانی کی شاعر ی کوزیادہ دلدوز،جگرگداز،الم آفریںاوربے حدمؤثرکردیاہے۔”ص١٧
رشید قیصرانی اپنے خانوادے کی بیٹی کوکچھ یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں! ”ایمان قیصرانی کی شاعری کا ایک اندازِ سخن یہ بھی ہے کہ وہ جہانِ ”من وتو” کے معرکے میں اپناقد ہرحال میں اونچارکھتی ہے۔وہ اردواورفارسی کے بنے ،بنائے اورگھسے پٹے مضامین سے بھی گریز کرتی ہے۔ایمان نے اپنے مجموعے کاعنوان ہی”میری یادآئے گی”رکھ کرسارامنظرنامہ بدل دیا۔”ص١٤ نعمان منظورلکھتے ہیں کہ!
Poetry
”ایمان کی شاعری اتنی بھرپور اور مکمل ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ پاکستان سے دورعرب صحراؤں کی باسی ہے۔ ایمان کی شاعری پڑھ کرمحسوس ہوتاہے کہ انھوں نے اپناماضی بھلایانہیںہے۔انھوں نے ہجرکی بے سروسامانیاںاشعارکے قالب میں ڈھال دی ہیں۔”ص١٨ ناز خیالوی ہماری اس ہردلعزیزشاعرہ کے لیے یوں گویاہوتے ہیں!
”غزل گوئی میں بھی ایمان قیصرانی نے اپنی تمام ترتخلیقی ،فکری،علمی وادبی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے غزل کے تمام لوازمات دل کھول کرفراہم کیے ہیں اورخیال کی جدّت ،مضمون کی ندرت اوراظہارکی قدرت کے خوب کرشمات دکھائے ہیں۔لفظوں کاچناؤ ،لہجے کارکھ رکھاؤاورطبیعت کابہاؤان کی شاعری کاجزوِخاص ہے۔”ص٢٣
لاہورکی ادبی دنیاکے معروف نام سعداللہ شاہ نے فلیپ میں کچھ یوں اظہارِخیال فرمایا۔ ”اس کے اندازِبیاں میں پروین شاکر کی ہلکی سی جھلک ہویداہوتی ہے۔مگرایمان انفرادیت کومجروح نہیں ہونے دیتی۔اس کے سخن میں اداسی اورنارسائی کی فضابھی ہے۔جوقاری کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔آنے والے وقت میں ایمان قیصرانی ہماری معتبرشاعرات میں شمارہوگی۔”
شاہ صاحب کے تبصرے پرہمیں قدرے تامّل ہے۔ہمارابہت بڑاادبی المیہ یہ ہے کہ ہمارے متعددناقدین کی نظریں صرف ماضی قریب تک محدودہیں۔ہردوسری شاعرہ پرتبصرہ کرتے ہوئے اس کے ڈانڈے پروین شاکر سے ملادیتے ہیں جب کہ ہمارے اردوادب میں بہت سی عمدہ اورشاعرات بھی گزری ہیں۔شاہ صاحب نے فتویٰ صادرفرمایاکہ ایمان قیصرانی میں پروین شاکر کی جھلک ہویدا ہے۔شاہ صاحب کوایمان قیصرانی کے شعرہذا سے گمان ہوا۔
غالب و اقبال ہوں پروین شاکر یا ندیم اپنا دامانِ سخن ان شاعروں سے جاملا
لیکن راقم کو اس سے مکمل اختلاف ہے۔شاہ صاحب کافتویٰ درخورِاعتنا نہیںکجاپروین شاکر کجاایمان قیصرانی کا منفرد لب ولہجہ! پروین شاکرکے ہاں یاسیت اوردھیماپن ہے۔وہ مصلحت سے مسائل کاحل چاہتی ہے۔دیکھیے پروین شاکر کہتی ہیں!
بے بسی کے رستے پر،بے چراغ تاریکی کیا عجب دوراہاہے ،بے نشاں ویرانی ایک سمت بے سمتی ،بے لحاظ رسوائی اس سے آگے وہ یوں گویاہوتی ہیں! سب طاق مرے دیے سے خالی بے برگ و ثمر بدن کی ڈالی کھڑکی پہ نہ آکے بیٹھے چڑیا آنگن میں بھٹک سکے نہ تتلی سنجوگ کی بے نمو رُتوں سے میں کتنی اداس ہو چلی تھی
Parveen Shakir
پروین شاکر کے ان اشعار میں نسوانیت اور معصوم التجائیں ہیں۔اس کے مقابلے میں ایمان قیصرانی کے شعری رویّے تندوتیز ہیں۔ان کااندازِ سخن جداگانہ ہے ایمان کی شاعری میں جوش وولولہ اورسوزگداز کے ساتھ رجائیت کی حسن آفرینی ہے۔ایمان کے گرمیٔ خون میں نظشے کامزاج اور غالبکا عشق مخفی ہے۔اسی لیے وہ گام بہ گام یوں گویا ہوتی ہیں۔
اُس کی جفاؤں نے مجھے آزاد کر دیا صد شکر چاہتوں کا وہ احساں نہیں رہا وہ نہیں تو اس کے بعداب اس کتابِ عشق کا ہم نے مضموں پھاڑ ڈالا خالی صفحہ رکھ دیا وہ جس کو شوق تھا مجھ کو گنواکے جینے کا سنا ہے اب وہ بڑی اُلجھنوں میں رہتا ہے ہمیں اس بد گماں سے اب شکایت کیا ہے کیاکہیے ہمیں اس بے مروّت سے گلہ کتناہے کیا لکھنا
ایمان کے اس مجموعہ کی غزلیات میں زندگی کے ہرموضوع کابیان حسن آفرینی سے موجودہے۔ایمان کے شعری رویّوں میں ندرت خیالی کے ساتھ ساتھ جدّت اورانقلابیت بھی ہے اورروایت پسندی بھی۔ایمان قیصرانی زندگی کی قدروں میں ہمیشہ اوّلیت اورترجیح کی خواہاں ہے۔وہ رہبری اورفرض کو دوعلیحدہ زاویوں سے دیکھتی ہے۔
یہ رہبری نہیں آخر ہمارا فرض بھی ہے سرابِ راہ کی چالوں پہ بھی نظر رکھنا جھلس کے دھوپ میں جب تم وطن کو آؤ گے تو گھر کے صحن میں بوڑھا شجر نہیں ہونا
ایمان قیصرانی جواں سال شاعرہ ہیں جو اپنے جذبات کی حدّت کو لفظوں کی پرنیوں میںجذب کرنے کی سعی میں مصروفِ عمل ہیں۔ان کی فکری جہات میں رمزوایماء اورمحبوبیت کی فراوانی ہے۔وہ سوئمبرجیتے والے کے لیے بھی ایسامثبت پیغام چھوڑتی ہیںکہ واسوخت میں بھی آداب کے پہلوؤںکومحفوظ رکھے ہوئے ہیں۔اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں!
آج تک ہوں منتظرمیں راستوں کی گرد میں تو سوئمبر جیت کر کن دلبروں سے جا ملا اپنے گہنے بیچ کر جوماں نے سونپی تھی مجھے کیا خبر تھی اب وہ چھت بھی بے وفا ہوجائے گی وہ جس نے دل دیکھانہیں ، وہ درد کیاجانے بھلا وہ جس کوہے سرسے غرض اُس کے لیے دستار کیا
جب ”تنگنائے غزل ”کااستعارہ وسعت کا تقاضا کرتاہے توایمان اپنے پیرایۂ اظہارکے لیے نظم کاانتخاب کرتی ہے۔ان کی نظموں میں محض خیالات کا اظہارنہیں بل کہ اس نے اپنی نظموں میں پورے حسّیاتی رچاؤ کے ساتھ اپنے تجربوں کا خوب اظہارکیاہے۔حمایت
علی شاعرکی ایک نظم دیکھیے! یہ ایک پتھرجو راستے پر پڑاہوا ہے اسے عقیدت تراش لے تویہی صنم ہے اسے محبت سنوارلے تو یہی خداہے
حمایت علی شاعر کی اس نظم میں معاشرہ اورکائنات کی پوری حقیقت بیان ہے۔اسی طرح ایمان قیصرانی کی نظموں میں بھی خارجی وسعت پورے ادراک سے نمایاں ہے۔ان کی نظم ”سوال ”دیکھیے!
اے خدا شیشے کادل،تونے دے کربتا سنگ زاروں میں کیوں؟ مجھ کوپیدا کیا۔
ایمان قیصرانی ایسی شاعرہ ہیں جس میں شاعری کے امکانات بدرجہائے اُتم موجودہیں۔یہ امکاناتِ شاعری مارکسی فلسفہ کواپنے اندازِسخن میں سموئے ہوئے ہیں۔ایمان کی غزلوں اورنظموںمیں صنّاعی نہیں بل کہ فطری ترفّع کے ساتھ ساتھ اُسلوب کاتفرّد بھی ہے۔یہ بھی توسچ ہے کہ جب تک تجربہ اورفنّی پختگی فنکارکی راہنمائی نہیں کرتے تواُس کے الفاظ وتراکیب کا سارانظامِ ابلاغ لایعنی ہوجاتاہے۔ہم اس ضمن میں ایمانقیصرانی سے صرف خوب نہیںبل کہ خوب ترکی اُمیدرکھتے ہیں۔راقم الحروف کایہ دعویٰ ہے کہ اس پُرخاروادی میںاگرایمانقیصرانی پورے جوش وجذبے سے سوئے منزل چلتی رہی تو ان کاشماربین الاقوامی نمائندہ شاعرات میںہوگا۔