تحریر: سید انور محمود یحییٰ خان نے 1969 میں ملک کی باگ دوڑ سھنبالی تو ساتھ ہی سات دسمبر 1970 کو عام انتخابات کا اعلان کردیا اور پہلی جنوری 1970 سے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔ 1970 میں میری عمر 18 سال تھی اور انقلابی سوچ تھی اور کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ بھٹو صاحب تو پیپلز پارٹی کا انقلابی منشور 1967 میں پیش کر چکے تھے، جس میں سے ایک پوائنٹ تھا کہ ‘سوشلزم ہماری معیشت ہے’، ساتھ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ نعرہ بلند ہوا کہ ‘روٹی کپڑا اور مکان’ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔ میرئے کتابیں پڑھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک صاحب نے مجھے ایک ناول پڑھنے کو دی جس کا نام تھا ‘ماں‘، یہ ایک روسی ناول نگار میکسم گورکی کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ ناول عام طور پر پاک و ہند میں ’میکسم گورکی کی ماں‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔میکسم گورکی کا یہ ناول عالمی شہرت رکھتا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ناول نگاری کی سو سالہ تاریخ میں اس ناول کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔لینن نے میکسم گورکی کے اس ناول کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ناول کی اشد ضرورت تھی۔ناول’ماں‘ ایک سچی کہانی پر لکھا گیا تھا جوانقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدو جہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب روس کے بعدبھی ناول کا مرکزی کردار زندہ تھا اور لوگ اس سے خط و کتابت کرکے انقلابی تحریک کے بارے دریافت کیا کرتے تھے۔
میکسم گورکی نیزنی نوف گورود، روسی سلطنت میں 28 مارچ 1868 کو پیدا ہوا اور 28 جون 1936 میں اس کا انتقال ہوا۔ میکسم گورکی کا اصل نام الیکسی میکسیمووچ پیشکوف تھا۔ میکسم گورکی نے اپنے زمانے میں روس اور ساری دنیا میں اپنے آپ کوایک انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی کے طور پر منوایا۔گورکی نے صرف تین کتابیں لکھیں جن میں سے ایک میں تالستائی،کورولینکو، چیخوف اورآندریئف وغیرہ سے اس کی جو ملاقاتیں ہوئیں ان کے کچھ حالات ہیں، دوسری کتاب ‘زندگی کی شاہراہ پر’ اور تیسری ‘روزنامچہ’ ہے۔ میکسم گورکی میں یہ فن بہت زیادہ تھا کہ وہ اپنے قاری کو اپنے نظریات کا ہامی بنا لیتا تھا۔میکسم گورکی کا ناول ‘ماں’ 1906 میں منظر عام پرآیا۔ناول کی کہانی ایک مزدور پاول ولاسوف، اسکی ماں، اسکے دوستوں اور کچھ خواتین کے گرد گھومتی ہے، اور ساتھ ہی اپنے قاری کے نظریات کو بدلنے کی بھی بھرپور کوشش کرتی ہے اور جب اس کا قاری ناول کے درمیان میں ہوتا ہے تو اس ناول کے ہیرو پاول ولاسوف کی بوڑھی اوران پڑھ ماں جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لا علم ہوتی ہے، پاول ولاسوف سے اور اسکے دوستوں سے پوچھتی ہے کہ ‘میں نے سنا ہے تم لوگ خدا کو نہیں مانتے؟’۔ پاول ولاسوف نے جواب دیا، ‘ماں ہم اس خدا کی بات نہیں کررہے جو تمارے دل میں ہے، جو رحیم و کریم ہے، شفیق ہے۔ہم تو اُس خدا کی بات کر رہے ہیں جو پادریوں نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے۔ جو ہر وقت ڈنڈا لے کر بندوں کو ہانکتا ہے۔ ماں! ایک دن ہم اپنا خدا ان پادریوں کے قبضے سے چھڑا لیں گے۔ پھر اسکو اپنے دل میں بسائیں گے اور اسکی حمد گائیں گے’۔ جن دوستوں نے گذشتہ سال بھارتی فلم ‘پی کے’ دیکھی ہے، اس میں عامر خان عرف پی کے پنڈت سے یہ ہی سوال کرتا ہے کہ ‘کس بھگوان کو مانیں جو تم نے بنایا ہے اسکو یا جس نے سب کو بنایا ہے اسکو؟’۔فلم کا یہ چھوٹا اور بنیادی سین شاید میکسم گورکی کے ناول کو پڑھ کر لکھا گیا ہو۔
گورکی کے ناول ‘ماں’ کا مرکزی کردار ناول کے ہیرو پاول ولاسوف کی بوڑھی، ان پڑھ ماں ہے جو انقلاب کیا ہوتا ہے بلکل نہیں جانتی۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کئے ہیں ۔ اسے اپنے بیٹے پاول ولاسوف سے بہت پیار ہے۔ پاول ولاسوف اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو اس ظالمانہ اور لوٹ مار کےنظام میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پاول ولاسوف سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر میں پاول ولاسوف کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پاول ولاسوف کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پاول ولاسوف دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کر رہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔
The Mother (novel) by Maxim Gorky
روس کی انسان دشمن زارحکومت کے خلاف عوام کیسے کمر بستہ ہوئے، زار جس کے بنائے ہوئے اندھے قانون اور سماجی نا انصافیوں نے عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا تھا۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دو چار تھا، عوام کی زندگی جن دشواریوں سے دو چار تھی یہ سب حالات کا ذکراس ناول میں موجود ہے۔ یوم مئی کا واقعہ اس ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاول ولاسوف پر مقدمہ چلتا ہے۔ وہ عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے: ہم اس نظام کیخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کے لیے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ پاول ولاسوف کو سائبیریا جلا وطنی کی سزادی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے: ‘اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے’۔
ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے، پاول ولاسوف کو سائبیریا روانہ کیا جانے والا ہے۔ ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ چوری چھپےچھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پاول ولاسوف کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات بانٹتی ہے۔ زار حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں، اس کے بال نوچتے ہیں، اپنے جوتوں سے ٹھوکریں لگاتے ہیں، وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے۔یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو بھی اجاگرکرتا ہے۔ پاول ولاسوف کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا،لڈمیلا،صوفیا اور نتاشا اپنے رشتے داروں اور گھر والوں کو چھوڑ کر انقلابیوں کے لیے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہے۔ ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پاول ولاسوف سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے ہتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی نہ مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھ دن تک کچھ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ناول ‘ماں’ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مزدور اور محنت کش جو بغیر سوچے سمجھے نام نہاد انقلابی لیڈروں کی حمایت کرتے ہیں، یہ ناول پڑھ کر انہیں پتا چل جائے گا کہ روسی مزدوروں نے کس کی قیادت میں زار حکومت کے خلاف اور کیوں انقلابی جہوجہد کی تھی۔میکسم گورکی ناول ‘ماں’ روسی ادب میں ایک تبدیلی کا باعث بنا۔ انقلاب روس کو سمجھنے کےلیے اس ناول کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔