تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری 12 مئی ہماری تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جس دن کراچی میں وکلاء کو زندہ جلا کر مار ڈالا گیا امثال تو سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد بھی پاس کی گئی جس میں ایم کیو ایم نے جو ڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ کسی طرح مزید وقت کٹ جائے پورے پاکستان کے وکلاء اس دن یوم سیاہ مناتے ہیں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری کو ڈکٹیٹر مشرف نے زبردستی غیر قانونی غیر آئینی طور پر عہدے سے ہٹا دیا تھا جس پر افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک نے جنم لیا اسے ہی نہیں بلکہ اس کے بیوی بچوں کو بھی زیادہ عرصہ گھر میں پابند سلاسل رکھا گیا ور پوری دنیا سے ان کا رابطہ کاٹ دیا گیا تھا۔بعد میں جب ہائوس اریسٹ کی پابندی اٹھائی گئی تو افتخار چوہدی وکلاء کے ہمراہ مختلف وکلاء بارز کو خطاب کرنے کے لیے پورے ملک کے دورے پر نکلے 10سال قبل 12مئی کو کراچی پہنچ کر خطاب کرنے کا پروگرام طے پا گیا۔ایم کیو ایم والے پرویز مشرف کے لاڈلے تھے تو انھیں مشرف نے اشارہ کیا کہ افتخار چوہدری کسی صورت کراچی میں داخل نہ ہونے پائے۔
انہوں نے بیعنہہ حکمران کی تابعداری کرتے ہوئے پورے شہر کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیاائیر پورٹ سے شہر کو جانے والے تمام راستوں پر مسلح فورس پھیل گئی اور کراچی ائیر پورٹ سے ہر آنے اور جانے والے وکیل کی پٹائی شروع کرڈالی گئی تمام راستوں پر مسلح غنڈے آنے جانے والی گاڑیوں کو جلا رہے تھے سارے شہر پر غندہ راج تھا افتخار چوہدری وہاں ائیر پورٹ پر اتر کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈیڑھ دن تک محصور بیٹھے رہے غنڈوں نے ان کو ائیر پورٹ سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہ دی۔موجودہ ناظم کراچی وسیم اختر جو کہ اس وقت وزیر داخلہ کے مشیر تھے نے خود اعلان کیا کہ میں نے شہر کو کنٹینر لگا کر سیل کیا ہے وہ آج بھی12مئی کے واقعہ پر درج کیے جانے والے سات مقدمات میں ضمانت پر ہیںسندھ ہائیکورٹ نے بعد ازاںان غندہ گردیوں اور دہشت گردیوں کا خود نوٹس لیاتوپیشی والے دن ہائیکورٹ بھی گھیرے میں آگئی اور ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی نہ ہو سکی۔
آج دس سال بعد بھی بدستور یہ دن آتا ہے اور چلا جاتا ہے مگر سکہ بند دہشت گردوں اور غنڈوں کو نہ تو لگام ڈالی جاتی ہے نہ ہی ان پر مقدمات کی کسی قسم کی سماعت ہوسکتی ہے کہ وکلاء اور گواہ سہمے سہمے اور جج ایسے مقدمات سے جان چھڑاتے ہیں کہ جان سبھی کو پیاری ہوتی ہے 12مئی کی شام 5درجن کے قریب ہلاکتوں کے بعد پرویز مشرف نے تقریر دل پذیر فرمائی اور مکے لہرا کر کہا کہ دیکھا ہماری طاقت۔وہ لسانیت پرست غنڈوں کے”کارہائے نمایاں ” یعنی قتل وغارت گری کواپنی طاقت قرار دے رہے تھے شہر کے اندر ہائیکورٹ کے قریب اپنے ہی چیمبروں میں بیٹھے نصف درجن سے زائد وکلاء کو زندہ جلا ڈلا گیا افتخار چوہدری کے حق میں تحریک چلانے والے وکلاء کو قتل و شدید زخمی کیا گیا۔
ایم کیو ایم کے وزراء تک کو سارا دن ٹیلی ویژن ہاتھوں میں کلاشنکوف لیے لہراتا ہوا دکھا تا رہا مزید یہ کہ وزراء کی سرکاری گاڑیوں پر اسلحہ ادھر ادھر غنڈوں کو پہنچایا جاتا رہا سارا دن کراچی جنگ وجدل کا منظر پیش کرتا رہا ایک روز قبل ہی11مئی کو ایم کیو ایم کے مرکزی راہنمائوں نے افتخار چوہدری کو انتباہ کیا تھا کہ وہ کراچی کا دورہ کرنے سے گریز کریں ورنہ انھیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ کہ ہم ا ن کی جان کی سلامتی کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے12مئی کو بیعنہہ ایسا ہی ہوا۔کراچی میں انہوں نے وہ اودھم مچایا کہ خدا کی پناہ ایسے سبھی واقعات پر غندہ عناصر اور دہشت گردی کے مرتکب افراد میں سے نہ تو کوئی گرفتار ہے اور نہ ہی کسی پر عدالتی مقدمے چل رہے ہیںخلق خدا بجا طور پر پوچھ رہی ہے کہ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس اور رینجرز اس دن کہاں موجود رہے کہ اس دن سارے شہر پر غنڈا راج نافذ رہااور غنڈے قتل وغارت گری کرتے دہشت گردی پھیلاتے رہے اور ان کا کسی نے بال تک بیکا نہ کیا بہت وقت گزرنے کے بعد دیگر لسانی گروہ اور پیپلز پارٹی کے ورکر میدان میں ضرور آئے تاکہ غنڈوں کا مقابلہ کیا جا سکے مگر اس وقت تک ایم کیو ایم کا غنڈہ دہشت گرد مسلح گروہ اپنا کام تقریباً مکمل کر چکا تھا۔
افتخار چوہدری بدستور کراچی ائیر پورٹ پر محصور بیٹھے تھے ۔ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار کراچی میں وکلاء ان کی آمد کا انتظار کرتے رہے مگر رات تک یہ ممکن ہی نہ ہو سکا۔ایسے گھمبیر واقعات پر بھی کوئی عدالت غنڈوں کے خلاف مقدمہ ہی نہ چلا سکے تو اس ملک کا بھی خدا ہی حافظ ہے ۔خالی خولی کالی پٹیاں باندھ کر ہر سال یوم سیاہ مناتے رہنا لا حاصل ہی ثابت ہوتا ہے12مئی گزرگیا سندھ اسمبلی کی قرارداد جو پاس کی گئی اس پر بھی عملدر آمد شاید ہی ہوسکے اگلے سال پھر12مئی کو یہ قصے کہانیاں دوبارہ سنی سنائی جا سکیں گی۔
کراچی بین الاقوامی شہر پاکستان کی معاشی حب اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کے ناطے کب ایسے غنڈوں سے پاک ہو گا ؟اس سوال کا جواب شاید کبھی نہ مل سکے دفن شدہ اسلحہ کے ذخائر تقریباً ہر ہفتے بر آمد ہورہے ہیں مگر مسلح دہشت گردوں کو لگام ڈالنے کا کام مکمل نا تمام ہے خدا کرے ہماری سیکورٹی فورسز اور رینجرز ایسے کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں وما علینا الا البلاغ۔