ہمارے ملک پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا۔ جب یکم مئی کو مزدور کا دن بنانے کے طور پر باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ پاکستان “عالمی تنظیم برائے مزدور” کا ممبر بھی ہے۔ ا س تنظیم کا مقصد مزدوروں کو معاشی حقوق دینا اور ان کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ یکم مئی کا دن آتے ہی ایوان ہائے اقتدار سے لیکر تمام تر جماعتوں کی طرف سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف تقاریر اور تبصرے کئے جاتے ہیں۔
اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہونے کے باوجود مختلف چوراہوں اور کارخانوں میں مزدور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر تگ و دو کرتا نطر آئے گا۔ اس دن ملک بھر میں مختلف سیمینار اور جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں جس میں بلند و بالا دعوے سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں مگر سورج غروب ہوتے ہی وہ سب ایک کوڑے دان کی نظر کر دیئے جاتے ہیں۔
کیا کوئی اس دن سوچتا ہے کہ بندہ مزدور کو دی جانے والی اجرت اس کے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کافی ہے، ان ننھے پھولوں کے لئے جومحض چند روپوں کے عوض سارا دن مٹی سے گرم اینٹیں بنانے کے لئے آگ اگلتی بھٹی کے سامنے بر سر پیکار ہے۔
Pakistani Labour
ماسٹرزکی ڈگری ہاتھ میں اٹھائے اس نوجوان کے لئے جو محض 6 سے 7 ہزار کیلئے دن بھر کارخانوں اور سڑکوں کی خاک چھانتا ہے۔ قوم کی ان ماوں کے لئے جو اپنا دن یا تو اینٹوں کے بھٹوں پر گزارتی ہیں یا پھر ہمارے ملک کے امراء کے آشیانوں میں جھاڑو دیتے۔ جب ایک مزدور دن بھر کی تگ و دو کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کا ضمیر یہ سوال کرتا ہے۔
ّّ روٹی خرید لایا ہو ں میں خون بیچ کر اے مفتی شہر بتا یہ مجھ پرحلال تو ہے۔
مزدوروں کو کیاسروکار ان بڑے جلسے اور جلوسوں سے۔ وہ تو کو لہو کا بیل بن کر اپنے لئے روزی کمائیں گے۔ کہنے کو تو اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے لیکن ایک مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا وہ بجائے آرام کے یہ سوچتا ہے کہ اگر اس نے محنت مشقت نہ کی تو شام کو گھر کا چولھا کیسے جلے گا؟ ہمارے ارباب اقتدار گو کہ ہر سال محض ایک ہزار تک کی رقم کا اضافہ کر دیتے ہیں لیکن دوسری طرف مہنگائی کا سیلاب بھی برپا کر دیا جاتا ہے جو کہ نت نئے ٹیکسوں اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی صورت میں نظر آتا ہے۔
اینٹیں بنانے والی بھٹیوں پر بچوں خواتین سے لیکر بوڑھے افراد نظر آتے ہیں جو یا تو محض دو سو سے تین سو تک کمانے یا پھر اپنے اس قرض کو اتارنے کے لئے جو کہ ان کے ابا و اجداد نے برسوں قبل اس بھٹی مالک سے لیا تھا دن رات تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ملک کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب اور قلم دینے کی بجائے کہیں گاڑیاں ٹھیک کرنے پر لگا دیا گیا تو کہیں ان کے ہاتھ میں کوڑے دانوں سے ردی کاغذ چننے کے لئے تھیلے تھما دیئے گئے۔
Education
کیا یہ بچے ان بچوں سے کم ہیں جو کہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ کیا تعلیم ان بچوں کا بھی بنیادی حق نہیں ہے؟ کیا جلسے منعقد کر کے اور ان میں بلند و بالا دعوے کر کے ان بچوں کی تعلیم کی حسرت کو پورا کیا جا سکتا ہے؟ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارا بر سر اقتدار طبقہ ہمارے مزدور طبقہ کے لئے عملی اقدامات کرے اور اس ملک سے “چائلڈ لیبر” کا خاتمہ کرے۔ اور مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں “چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز” قائم کئے جائیں تا کہ بچوں کوجبری مشقت سے بچایا جا سکے۔
تو قادر و عادل ہے مگر ترے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات