سانحہ بابری مسجد

BJP

BJP

بھارت کی 5 ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی سب سے آگے نظر آ رہی ہے، راجستھان کے وزیراعلی اور کانگریس کے رہنما اشوک گہلوت نے راجستھان میں اپنی ہار تسلیم کر لی ہے، بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک نوزائیدہ پارٹی یعنی عام آدمی پارٹی کا جادو چلا لیکن ابھی بھی بی جے پی سب سے آگے ہے، برسر اقتدار کانگریس کو لوگوں نے تقریباً مسترد کردیا ہے، ابتدائی رجحانات کے مطابق مدھیہ پردیش کی 230 نشستوں میں 145 سیٹوں پر جماعت بی جے پی کو برتری حاصل ہے جبکہ 59 سیٹوں پر کانگریس بھی کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی المعروف “بی جے پی” بھارت کی ایک سیاسی جماعت ہے جو 1980ء میں قائم کی گئی۔ یہ جماعت ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کی علمبردار ہے اور قدامت پسند سماجی حکمت عملیوں، خود انحصاری، قوم پرستانہ طرز عمل سے خارجہ حکمت عملی چلانے پر یقین رکھتی ہے۔بی جے پی 1998ء سے 2004ء تک، دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے، اقتدار میں رہی اور اس عرصے میں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم اور لعل کرشن ایڈوانی ان کے نائب رہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے بی جے پی کے نظریات کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ اس مسجد کے انہدام میں اس جماعت کے رہنما ملوث تھے۔

اس کے علاوہ یہ اس مسجد کی شہادت کے بعد اس مقام پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں رائے رکھتی ہے۔ صوبہ گجرات فسادات 2002ء میں بی جے پی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور چشم پوشی کے باعث سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے ساتھ بی جے پی نے بھی رام جنم بھومی تنازعہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور بابری مسجد منہدم کر کے مندر کی تعمیر کا اعلان کیا۔ 6 دسمبر 1996ء کو بی جے پی، آر ایس ایس، وشوا ہندو کے کارکنوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔

1996 ء میں انتخابات کے بعد بی جے پی کو 161 نشستیں ملی تھیں، اور گٹھ جوڑ کے توسّط سے 13 دن تک واجپائی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ لیکن اکثریت ثابت نہ کر سکا تو استعفیٰ دینا پڑا۔ 1998ء کے انتخابات میں بی جے بی نے 182 نشستیں حاصل کی تھیں، واجپائی دوبارہ عہدہ وزیرِ اعظم پر فائز رہے۔ لیکن جیا للیتا کی قیادت والی جماعت نے انحراف کی تو حکومت گر گئی تھی۔ بھارت میں اب سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنی والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح پر ایک کتاب لکھنے کی پاداش میں پارٹی سے خارج کر دیا تھا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ‘جناح – بھارت، تقسیم، آزادی’ میں لکھا ہے کہ بھارت میں محمد علی جناح کی شخصیت کی غلط عکاسی کی گئی ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے ذمہ دار بھارت کے سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور کانگریس پارٹی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی کے صدر رجناتھ سنگھ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کتاب میں جسونت سنگھ کی ذاتی رائے ہے نہ کے بی جے پی کی، اور انہوں نے پوری طرح لاتعلقی ظاہر کی تھی۔ جسونت سنگھ کی کتاب سترہ اگست کو منظر عام پر آئی تھی۔

Maya kodnani

Maya kodnani

اس کتاب کے حوالے سے جسونت سنگھ کے مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں انٹرویو بھی شائع ہوئے تھے جس میں انہوں نے اپنا موقف مزید واضح کیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے باہر نکالے گئے جسونت سنگھ نے اس پورے عمل کو افسوس ناک قرار دیا تھا۔ بھارت کی ایک عدالت نے 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات میں بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی کو28 سال قید جبکہ بجرنگ دل کے رہنما بابوبجرنگی کو عمر قید کی سزا بھی سنائی تھی۔بھارتی ریاست گجرات کی خصوصی عدالت نے 2002ء کے مذہبی فسادات کے سلسلے میں نریندر مودی کی حکومت میں سابق وزیر مایا کوڈنانی سمیت 32 افراد کو قصور وار قرار جبکہ اس مقدمے کے دیگر 29 ملزمان کو بری کر دیا تھا، عدالت نے یہ فیصلہ نروڈا پاٹیا کیس میں سنایا ہے جس میں 28 فروری 2002ء کو ہندو مسلم فسادات کے دوران 95 افراد کو ہلاک کردیا گیا تھا جن میں بیشتر بچے اور خواتین تھیں، فسادات کے دوران قتل عام کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔

ڈاکٹر مایا کوڈنانی ریاستی اسمبلی میں نروڈا کی نمائندگی کرتی ہیں اور وہ 2007 سے 2009 تک وزیر کے عہدے پر بھی رہیں۔ مایا کوڈنانی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی بہت قریبی تھیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھارتیہ جنتا کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے اور آر ایس ایس کے کیمپوں میں شدت پسندی کی تربیت جاری ہے۔ وزیر داخلہ نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے پاس رپورٹ آ گئی ہے۔ تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ چاہے بھارتیہ جنتا پارٹی ہو یا چاہے آر ایس ایس ہو ان کے ٹریننگ کیمپوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا کام دیکھا جارہا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے ہوں، مکہ مسجد پر ہونے والا بم دھماکہ یا پھر مالیگاؤں کے دھماکے ہو ہندو شدت پسندوں نے وہاں جا کر بم رکھے اور پھر کہا کہ مسلمانوں نے یہ دھماکے کیے ہیں۔ شندے نے کہا کہ ایسی کوششوں سے ملک کو ہوشیار رہنا چاہیے۔

حیدرآباد کی مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں میں دھماکوں کے بعد تفتیش کے دوران آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے سادھوی پرگھیہ ٹھاکر اور اسیم آنند جیسے ہندو شدت پسندوں کے نام سامنے آئے تھے۔ پہلے ان دھماکوں کے لیے مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن تفتیش کے بعد ہندو شدت پسندوں کے نام سامنے آئے تھے۔ بھارت کی ہندو انتہاء پسند جماعت بی جے پی نے چند ماہ قبل حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک پاکستان داؤد ابراہیم اور حافظ سعید کو بھارت کے حوالے نہیں کرتا اس وقت تک اسلام آباد سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہ کئے جائیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے روایتی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے داؤد ابراہیم اور حافظ سعید کو ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔ جماعة الدعوة جو ایک محب وطن جماعت ہے اور ملک کے دفاع کے لئے ملک گیر تحریک چلا رہی ہے۔

اسکے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ جس ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے ہندوئوں کو اکسا کر بابری مسجد کو شہید کیا۔ احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ پورے پورے خاندان کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی اور گودھرا ٹرین میں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا وہی پارٹی آج ہندوئوں کے جذبات بھڑکا کر برسر اقتدار آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ساری صورتحال سے بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کا خون ہو رہا ہے اور وہ شدید کرب سے دوچار ہیں۔ ہندو انتہا پسندوںنے صرف بابری مسجد کو ہی شہید نہیں کیا بلکہ اس کے بعد مزید پانچ سو مساجد کو شہید کر دیا گیا۔ خود کو سیکولر کہلوانے والی کانگریس بھی ہندو ازم کو فروغ دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے آپ کو ہندو ازم کو پروان چڑھانے والا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی بہت زیادہ فتنوں کو ہوا دے رہی ہے اور تشدد کو ابھار رہی ہے۔ سب سے بڑا درندہ اور ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ہندوئوں کی جانب سے اس لئے اسے ووٹ دیے جا رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بھارت نے 6 اگست کو لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان پر لگایا تھا، اس واقعے کے بعد بھی بی جے پی دیگر انتہاء پسند جماعتوں اور بھارتی میڈیا نے روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف مظاہروں پر اکسایا جس کے بعد کانگریس کے کارکنوں اور دیگر انتہاء پسند ہندو جماعتوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی تھی جب کہ ہندو انتہاء پسندوں نے امرتسر سے لاہور آنے والی دوستی بس کو بھی روک کر پاکستان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی بھارت کے ساتھ دوستی وتجارت کے لئے پر عزم ہیں مگر دیکھتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد وہ نواز شریف کا خواب پورا کرتی ہے یا نہیں؟

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472