تحریر : قادر خان افغان مورخہ 24 جنوری 2017ء کو بلدیہ عظمی کراچی میں ضمنی بجٹ کو اجلاس پیش کیا گیا ، حیران کن طریقے سے پیش کئے جانے والا بجٹ کسی طور پر جمہوری رویئے کی نشان دہی نہیں کرتا تھا ، بجٹ اجلاس میں شرکت کے نوٹس کراچی کے چیئرمیز کو صرف ایک دن قبل ملے ، جبکہ بجٹ اجلاس میں شرکت سے صرف ایک منٹ قبل گیٹ پر بیٹھے ہوئے کے ایم سی کے ملازمین نے یو سی چیئرمیز کو ضمنی بجٹ میزانیہ 2016-17دیا ۔ نئے نظام سے ابھی تک یو سی چیئرمیز ابھی تک کماحقہ واقف ہی نہیں ہوسکے ہیں ، ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ انھیں لاحق پریشانیوں کے حوالے سے کوئی معاونت فراہم نہیں کی جاتی ،ڈ ائریکٹر میڈیا منجمنٹ ڈیپارٹمنٹ علی حسن ساجد سے وقت لیکر ملاقات کیلئے پہنچا تو اتفاق سے اسی دن بجٹ اجلاس بھی تھا ، موصوف کسی” خاتون” کیساتھ راز و نیاز میں ایک کونے میں مصرودف تھے ، ان سے اپنا دوبارہسلام دعا کرکے انھیں یاد دلایا کہ آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں ، لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگی ، کچھ دیر توقف کے بعد بجٹ اجلاس دیکھنے کیلئے چلا گیا ۔میئر کراچی کے100 پلان کے حوالے سے میونسپل کمشنر بد ر جمیل کے پاس بھی وقت نہیں تھاکہ وہ کوئی تسلی بخش جواب دے سکیں ، ڈائریکٹر میڈیا منجمنٹ ڈیپارٹمنٹ علی حسن ساجدکو اپنی”مصروفیات”سے فرصت نہیں تھی ۔ میئر کراچی کو نیوز چینلز کو انٹرویوز دینے سے فرصت نہیں۔کے ایم سی کی تاریخی عمارت میں داخل ہوتے وقت میری نظر تاریخی عمارت کی گھڑیا ل پر پڑی ، اس وقت کراچی میں 1 بجکر 25منٹ دوپہر کے بج رہے تھے ، َ میئر صاحب کو بھی وقت کی قدر نہیں اس لئے ان کے ہیڈ آفس کا گھڑیال اس وقت پونے چار بجے سہ پہر پر رکا ہوا تھا ، اسی وقت ایک خیال ذہن میں کوندا کہ جو سٹی حکومت اپنے ہیڈ آفس و تاریخی ورثے کا گھڑیال درست نہیں کراسکتی ، وہ کراچی میں اپنی جماعت کے ہاتھوں کراچی کی ترقی کو سبوتاژ کرنے والے شہر کی حالت کس طرح درست کرسکے گی۔
بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے ہنگامہ شروع کردی کہ یہ کونسا طریقہ ہے کہ ہم سے زبردستی بجٹ منظوری کا کہا جارہا ہے جبکہ ابھی تک اس کا ایک صفحہ بھی نہیں پڑھا ، میئر کراچی کے کونسل کے افسران اپوزیشن کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پہلے اس بجٹ کو پاس کردیں ، بعد میں اس پر غور و فکر کرلیا جائے گا اور آئندہ سال کے بجٹ میں ایسا نہیں ہوگا ۔ نئے بلدیاتی نظام میں اختیارات کا رونا رونے والے ، خود اپنے چیئرمیز کو اختیارات دینے کو تیار نہیں ہیں ، ایک آمرانہ رویہ جو ایم کیو ایم کا خاصہ رہا ہے اس کا مظاہرہ عددی اکثریت کی زعم میں ایک بار پھر دیکھنے کو ملا ، اپوزیشن میں مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، سمیت دیگر کراچی اتحاد کی جماعتوں کے واک آئوٹ پر پارلیمانی طریق کار کے مطابق انھیں منانے بھی کوئی نہیں آیا ، بلکہ میئر کراچی پانچ منٹ کا وقفہ کراکر کر کسی میٹنگ میں شرکت کا کہہ کر چکے گئے اور اجلاس کو ڈپٹی میئرارشدہ وہرہ کے حوالے کردیا ، میئر کراچی کا اپنا اجلاس اور اراکین کووقت و جواب نہ دینے کا رویہ اور راہ فرار اختیار کرنا بڑا حیران کن تھا۔
انھوں نے میئر کراچی بننے کے بعد جس طرح کراچی کی ترقی و مسائل کے لئے ہر جماعت کے سربراہ کے پاس جاکر یقین دہانی حاصل کی تھی کہ وہ مل جل کر پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر کام کریں گے ، وہ تاثر 24 جنوری کے اجلاس میں بالکل ضائع کردیا گیا ، اپوزیشن نعرے لگاتی رہی ، کہ لندن والوں کے چہرے بے نقاب ہوگئے ، ایم کیو ایم پاکستان وہی کچھ کررہی ہے جو ماضی میں کرتی رہی ، اپوزیشن کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کر اپنے لئے مراعات کی قرارداد کی منظوری بھی لے لی۔ یہ بھی بہت حیران کن صورتحال تھی کہ میئر کراچی اور ایم کیو ایم پاکستان کا رویہ اقتدار میں ہونے کے بعد آسمان پر پہنچ جاتا ہے ، جہاں سے واپس لانے کیلئے انھیں رسی ڈال کر نیچے اتارنا پڑتا ہے۔ یہاں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کورآڈینیشن کی کمی بھی واضح محسوس کی جا رہی تھی ۔ بلدیہ عظمی کراچی نے سر پلس بجٹ پیش کیا، جس کی تفصیلات اخبارات میں آچکی ہیں ، لیکن چیئرمیز کے تبصرے بڑے دلچسپ تھے کہ مالی پریشانیوں کا رونا رونے والے ، کراچی کے 40حصے کے میئر کا رویہ رعونت سے بھرپور تھا ۔میئر کراچی بنانے کیلئے جب ان کا انتخاب ان کے قائد نے کیا تھا تو اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ میئر کراچی کیلئے ایک متحمل مزاج میئر کراچی کی ضرورت ہے ، اور تند و تیز و عجلت پسند میئر وسیم اختر اس عہدے کے لئے غیر موزوں ہیں ، لیکن یہی کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ان کے رویئے میں تبدیلی آجائے گی ۔ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وسیم اختر کی تربیت کرتے رہیں گے ، لیکن حالیہ اجلاس اور 100 روزہ ناکام پلان کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں واقعی تربیت کی ضرورت ہے۔
Mustafa Kamal
میئر کراچی اب بھی ان ہی حلقوں میں ترقیاتی کام کروا رہے ہیں ، جو ماضی میں ان کے جماعت کے باغی رہنما مصطفی کمال کراتے رہے تھے ، مصطفی کمال بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، پرویز مشرف کی جانب سے برسنے والے خزانے سے انھوں نے تمام روپیہ زمین میں دبا دیا ، کوئی ایسا بنیادی کام نہیں کیا ، جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچتا۔ان کے ترقیاتی کاموں کا یہ حال ہے کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی میں ٹریفک کا اژدھام اور جن منصوبوں پر بغیر مشاورت کے عمل کیا گیا اور عوام کا پیسہ خرچ کیا گیا ، وہ تقریباََ دوبارہ ضائع ہوچکا ہے ، کراچی کے سیوریج نظام کو بدلے بغیر، گارنٹی یافتہ سڑکیں مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی ہیں ۔ہلکی بارش ،اور ابلتے گٹروں سے نکلے گندے پانی سے اربوں روپوں کی سڑک بہہ جاتی ہے ، فلائی اوور ز کو آسان و سہل ٹرانسپورٹ کا ذریعہ بننا چاہیے تھا ، اب اُن پر ٹریفک کا ہر وقت جام رہنا ، ٹریفک منجمنٹ اصولوں کے برخلاف اربوں روپوں کا ضائع ثابت ہوا ہے ، باچا خان فلائی اوور ، واٹر پمپ چورنگیاں ، ناظم آباد پل ، سمیت اہم شاہراہ اس وقت کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں ، اب دوبارہ موجودہ میئر کراچی ، پسماندہ علاقوں کو بد حالی دور کرنے کے بجائے اپنے من پسند علاقوں میں ترقیاتی اسکیمیں منظور کرا رہے ہیں ، نئی یو سی بننے والوں کے لئے دفاتر و عملہ نہیں ہے ، یو سیز میں بلدیہ ملازمین کو تنخواہ کی مد میں چیک دیئے جاتے ہیں ، لیکن ان کی حاضری سمیت اب ضلعی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے غیر قانونی لیٹر جاری کردیئے جاتے ہیں کہ چیئرمیز سٹی کونسل سے رابطہ کریں ، پختون آبادیاں ہر دور میں پسماندگی کا شکار رہی ہیں ، پی پی پی تو صوبائی حکومت میں ہونے کی وجہ سے اپنے ایم پی اے ، ایم این ایز کے ذریعے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرادیتے ہیں ، ایم کیو ایم ، کا بھی یہی حال ہے۔
میئر کراچی منتخب ہونے کے بعد بھی ان کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ۔ ان کی ترجیحات اب بھی کورنگی ، لانڈھی ،نارتھ ناظم آباد ، گلشن اقبال اور لیاری کا مینڈیٹ لینے کیلئے مخصوص علاقوں پر ہی مرکوز ہے۔ مضافاتی علاقوں کے کئی پختون آبادیوں کے نمائندے گو مگو کی کیفیت میں گرفتار ہیں کہ ضلعی ایڈمنسٹریشن ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں ، سٹی کونسل سیکرٹریٹ ، یو سی چیئرمیز کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیتے ، آئے روز ٹاک شوز اور انٹرویو میں اختیارات کا رونا ہی روتے نظر آتے ہیں ، کے ڈی اے ، واٹر بورڈ ادارے ایم کیو ایم کیوں مانگ رہی ہے ، اس کی حقیقت سے کون نا واقف ہوگا ۔ تاہم ایم کیو ایم پاکستان کا رویہ ایسا نظر آتا ہے کہ ان کی پالیسیاں اب بھی لندن سے ہی آپریٹ ہو رہی ہیں ، کیونکہ انھوں نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ انھوں نے تمام قومیتوں کو ساتھ ملا کر چلنے کا جو عہد کیا تھا ، وہ سچ ثابت نہیں ہو رہا ۔اختیارات جتنے بھی ملے ، اس پر بھی ان کا اس طرح قبضہ ہے کہ احساس محرومی کے شکار علاقوں کے مسائل کی جانب ایم کیو ایم کے میئر توجہ نہیں دینا چاہتے ، انھوں نے تمام قومیتوں کو چیئرمیز لو اعتماد میں لینے کیلئے کوئی مثبت عملی قدم نہیں اٹھایا ، اپنے لئے مراعات حاسل کرلینا ، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایم کیو ایم ابھی تک لندن کے خمار سے باہر نہیں نکلی ، ایک جانب مصطفی کمال ، قومیتوں کو ملانے کی بات کرتے ہیں ، لیکن ان کے پاس کوالٹی نہیں ، وہ پلیٹ فارم تو پاک سر زمین کا کررہے ہیں ، لیکن ان کی زبان سے اپنے روحانی باپ کا پڑھایا جانے والا سبق شکرین میں ملا کر کراچی کی عوام کو دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب میئر کراچی عملی طور پر اپنے روحانی باپ کے دیئے گئے سبق پر عملی طور پر نظر آرہے ہیں ، میڈیا کے سامنے ان کا چہرہ نقاب میں ہوتا ہے ، میڈیا کے کیمرے ہٹتے ہی ، سابق مئیرمصطفی کمال کی طرح مغرور میئر عوام و چیئرمیز کے سامنے ہوتا ہے ، قول و فعل کے اس عملی تضاد نے بڑا مایوس کیا ہے ، مائنس فارمولے کے باجود عملی طور پر ان کے رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔تشدد کی بندوق کو قانون نافذ کرنے والوں نے بند کیا ہوا ہے ، ورنہ ایم کیو ایم کے چاروں دھڑے کراچی کو میدان جنگ بنا چکے ہوتے ۔میئر کراچی اور ضلعی ایڈمنسٹریشن اپنے رویوں کو تبدیل کریں ، میڈیا کے سامنے نقاب اور میڈیا کے بغیر اپنی رعونت کے دوہرے معیار کو ختم کرکے کراچی میں ترقی کے سفر کو جو تین عشروں سے روکا گیا ہے ، اب تو اس کا خاتمہ کردیں ۔بلدیہ عظمی کراچی کے بجٹ اجلاس میں جو کچھ ہوا ، اس سے محبتیں نہیں بلکہ دوبارہ نفرتوں کو فروغ ملے فا ، جس کی مکمل ذمے داری میئر کراچی اور ایم کیو ایم پر عائد ہوگی۔اور اس سے شہر میں محبتوں کا پروان چڑھانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔