تحریر : روہیل اکبر مسلم لیگ ن کی حکومت نے مسلم کمرشل بنک کی طرح واپڈا جیسے قومی ادارے کو متعدد بار اپنے پیاروں کو فروخت کرنے کی کوشش کی مگر جیسے ہی حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت شروع ہوتی تو تودوسری طرف واپڈا کی یونین خورشید احمد کی سربراہی میں متحرک ہوجاتی جسکی بنا پر حکومت کو پرائیویٹائزیشن کا یہ عمل روکنا پڑ جاتا جس دور میں ایم سی بی کی بند بانٹ کی جارہی تھی اگر وہاں کی یونین میں خورشید احمد اور ساجد کاظمی جیسے جانثار ورکر ہوتے تو یہ بنک کبھی بھی نہ بکتا چونکہ واپڈا کے خریداروں میں بھی میاں منشاء کا نام سرفہرست ہے اس لیے میں اپنے پڑھنے والوں کو ایم سی بی کی خریدوفرخت کی اندورنی کہانی سے بھی آگاہ کرتا چلوں کہ نواز شریف کے پہلے دورحکومت میں شفاف پرائیوٹائیزیشن کیسے عمل میں لائی گئی 9جنوری1991ء کو مسلم کمرشل بنک نجی شعبہ کے حوالے کردیا گیا بنک کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والوں کی طرف سے پانچ پیش کشیں وصول ہوئی تھیں۔ ایک کو شامل نہیں کیا گیا اس بنک کے 26فی صد حصص کی خریداری کے لئے پیش کش دینے والوں میں توکل گروپ اور منشا گروپ دو بڑے ادارے تھے
لیکن توکل گروپ کی جانب سے زیادہ بولی دینے کے باؤجود حصص منشا گروپ کو فروخت کردئے گئے توکل گروپ نے اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائیر کردی جسے سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا ۔ لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر توکل گروپ نے سندھ ہائی کورٹ سے اپنی درخواست واپس لینے کی خواہش کا اظہار کیا سندھ ہائی کورٹ کی ڈویڑن بنچ نے انہیں اپنی آئینی درخواست واپس لینے کی اجازت دے دی ‘ اس طرح یہ درخواست غیر موثر ہوگئی اس درخواست کی واپسی کے حوالہ سے واقعات کے شاہد کہتے ہیں کہ توکل کے ایک بیٹے کے خلاف اچانک مقدمات قائم کرکے اسے گرفتار کرلیا گیا تھا جو اندرون خانہ مذاکرات کے نتیجہ کے بعد رہاکردیا گیا
حکومت پاکستان اور منشا گروپ کے درمیاں معاہدہ فروخت کے مطابق اسپانسرز تین دن کے اندر 83کروڑ 88لاکھ روپے کی ادائیگی کرکے بنک کاانتظام سنبھال لیں گے یہاں پر ایک بڑی ہی دلچسپ بات اورحیرت انگیز پہلو ہے کہ نواز شریف نے 6نومبر1990 کو حکومت سنبھالی اس کے صرف ایک ماہ اور 9دن کے بعد انہوں نے مسلم کمرشل بنک کی نج کاری کے لئے بولی مانگی اور 9 جنوری 1991کو پاکستان کے اس اہم ترین اور بڑے بنک کی نج کاری کے ذریعے میاں منشا ( اور ان کے رفقاء میسرز عبداللہ جو 17بڑے صنعت کاروں پر مشتمل کنسورشیم تھا)کے حوالے کردیا۔
Muslim Commercial Bank
اس وقت مسلم کمرشل بنک کی نج کاری کے لئے پانچ خریدار سامنے آئے جن میں توکل گروپ اور آد م جی ( مسلم کمرشل بنک کے اصل مالک اور بانی جن سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے یہ بنک لیا تھا ) پہلے اوردوسرے نمبر پر رہے آدم جی جس نے یونس برادرز کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا تھا ( 1949میں پاکستان کے سب سے بڑے برآمدکنندگان ہاؤس تھے )مسلم کمرشل بنک قائم کیا تھا پرانے مالک ہونے کے ناطے سے یہ ان کا پہلا حق تھا کہ مسلم کمرشل بنک انہی کو فروخت کیا جاتا ۔ لیکن بجائے انہیں دینے کے میسرز عبداللہ اور ان کے رفقاء جن کی بولی تیسرے نمبر پر تھی کے حوالے کردیا گیاجسکی قیادت میاں منشاء کررہے تھے یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور منشا گروپ کے درمیان معاہدہ فروخت کے مطابق اسپانسرز تین دن کے اندر 83کروڑ 88لاکھ روپے کی ادائیگی کرکے بنک کاانتظام سنبھال لیں گے ( یہ بات آج تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے کہ اس گروپ نے وہ رقم کہاں سے اور کس طرح سے حاصل کی تھی۔
بنک تحویل میں آنے کے بعد میاں منشاء نے اپنے محسنوں میاں برادران کے احسانوں کا بدلہ اتارنے کے لیے انہیں فوری قرضے جاری کرودایے جسکی تفصیل بھی کچھ یوں ہے اتفاق گروپ نے 19اگست1991میں مسلم کمرشل بنک مین برانچ کراچی میں 15,15ہزار روپے سے دو اکاؤنٹ کھولے اتفاق شوگر ملز کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ کا نمبر11265اور میسرز برادرز شوگر ملز لمیٹیڈکے اکاؤنٹ کا نمبر 11264تھا دونوں اکاؤنٹ ایک ساتھ کھولے گئے اکاؤنٹ کھولے جانے کے اگلے روز ان دونوں اکاؤنٹ میں پندرہ پندرہ کروڑ کی رقم جمع کرادی گئیں یعنی صرف صفروں کا اضافہ کیا گیا یہ قرضہ انہیں راتوں رات مل گیا۔ اس کے اگلے ہی روز 19اگست1991 کو یہ تیس کروڑ روپے چیک نمبر 306157 اور چیک نمبر306126 کے ذریعے نکال بھی دیے گئے جس سے حساب برابر ہو گیا یعنی صرف دو دن میں30 کروڑ روپیہ جمع بھی ہوا اور نکل بھی گیا
اتنی بڑی رقم نجی شعبے میں دئیے جانے والے ایک بنک سے بطور قرضہ حاصل کی گئی تھی اس عرصے میں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اتفاق برادرز اور شوگر ملز میں ایسی کونسی توسیع کی گئی جس کے لیے 30کروڑ روپے کی خطیر رقم کی ضرورت تھی ۔اب ایک بار پھر حکومت میاں منشاء کو نوازنے کی تیاریوں میں مصروف ہے مگر واپڈا یونین حکومت اور میاں منشاء گروپ کے درمیان رکاوٹ بنی ہوئی ہے واپڈا یونین کا اس وقت یہ موقف ہے کہ حکومت نے اگر واپڈا کو فروخت ہی کرنا ہے تو پہلے خسارے میں چلنی والی کوئٹہ ،حیدر آباد اور ملتان جیسی کمپنیوں کو فرخت کیا جائے نہ کہ منافع بخش کمپنیوں کو پہلے دیدیا جائے۔