مجھے یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں

Child Bodies

Child Bodies

تحریر : ایم سرور صدیقی
میری میز، سوشل میڈیا اور کمپیوٹر کے Dedsktop پر درجنوں تصاویریں بکھری پڑی ہیں میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہا ہے شاید میں بزدل ہوں جو سامنا کرنے سے ہچکچا رہا ہوں میں سونا چاہتاہوں لیکن سونے سے بھی ڈر لگتا ہے حالانکہ یہ تو سچی تصویریں ہیں ایک بے رحم قوم کا تحفہ۔ موت کا تحفہ ۔۔۔موت کے سوداگروں کا انتقام ۔۔یہ تصویریں غزہ کے معصوم شہیدوںکی تصویریں ہیں، زندگی سے محروم اپنے ہی لہو میں ڈوبے فلسطینی نوجوانوں کی تصویریں، ایسی ہی درجنوںتصویریں عراقی مسلمانوں کی بھی ہیں جن کا اتحادی فوجوں نے قتل ِ عام کرکے ابدی نیندسلا دیا۔کچھ تصویریں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوںکی ہیں جو نصف صدی سے بھارتی مظالم کا مقابلہ کرتے کرتے موت کی وادی میں جا پہنچے ہیں۔ایسی کچھ تصویریں میرے وطن پاکستان کی بھی ہیں جہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوںنے ڈرون حملے کرکے سینکڑوںا فراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لہومیں ڈوبی کئی تصویریں افعانستان کے مسلمانوںکی بھی ہیں جوان لڑکیوں،بوڑھے مردوں اور عورتوں کی تصویریں جنہیں سفاک یہودیوں نے بمباری اورحملے کرکے ان کے اپنے گھروں،بازاروں اور گلی کوچوںمیں موت کی نیند سلادیا۔

اپنے پیاروں کی لاشوںپر نوحہ کناں مائوں بہنوں بیٹیوںکی بین کرتی تصویریں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن یہودی اجل بن گئے، درندگی کی انتہا غزہ میں ہر طرف تباہی، ہر سمت بر بادی۔ موت کا بھیانک رقص ۔۔جب ہر گھرسے جنازے اٹھ رہے تھے میں بے بسی سے خون کے آنسوروتارہا مسلمانوں کے مکانوں سے رونے کی آوازیں، ڈرے ڈرے سہمے سہمے بچے ،مائوں بہنوںکی سسکیاں۔۔ ساحل پر کھیلتے بچوںپر بھی فائرنگ متعددشہید۔۔۔اتحادیوں، یہودیوں اور ہندوئوں کے مظالم کے آگے درندگی اورسفاکی بھی شرماگئی کئی دن سے یہ تصویریں میرے حواس پر چھائی ہوئی ہیں میں ان کا سامنا کرنے سے ڈرتاہوں۔۔۔ ان کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں لیکن کوئی نہ کوئی ای میل Mail Eکردیتاہے موبائل پربھی ایسی ہی تصویریں بھیجی جا رہی ہیں جیسے عوام کا یہی محبوب مشغلہ ہو۔ایک تصویردیکھ کر دل لرز لرزگیا ایک دس بارہ سالہ فلسطینی بچے کی کھوپڑی پر اس انداز سے گولی لگی کہ اس کا بھیجہ نکل کر گرگیاجس سے لاش کی حالت دل ہلا دینے والی ہے۔۔مجھے وہ تصویر بھی نہیں بھولتی تین پیارے پیارے گول مٹول بچے مرنے کے بعد بھی آپس میں لپٹے ہوئے ہیں جیسے انہوں نے کبھی جدا نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہو ان کے چہروںپر عجب تازگی ہے۔

اپنے ہی خون میں لت پت ا س بچی کو کیسے فراموش کردوں جس کی صورت تو فرشتوں جیسی ہے لیکن اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں کئی سوال ہیں میں تو سامنا کرنے سے ڈرتاہوں اس کی کھلی ادھ کھلی آنکھوںکی طرف کیسے دیکھوں مجھے تاب کا یارا نہیں۔۔۔اگر مجھ سے پوچھ بیٹھے بھائی! میرے خون ِ ناحق کا انتقام لو گے؟۔۔تو میں کیا جواب دوں گا؟ وہ کیا سوچے گی ان مسلمانوںکو کیا ہوگیا جن میںظلم سہہ کر بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ نہیں۔۔ میں نظریں چرارہا تھا کہ ایک اور تصویر اچانک میرے سامنے آگئی ۔۔۔جیسے سرتاپائوں خون میں ڈوبی گڑیا۔۔ایسی گڑیا جس سے بچے کھیلنے کیلئے ضد کریں اسے دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل کر رخساروںپر لڑھکنے لگے دل سوچ میں گم کہ صیہونی درندوںنے قدرت کے بنائی کس قدر پیاری صورتوں کومٹی میں ملا دیا میں نے پیاری سی گڑیا کی تصویرکوہاتھ بڑھا کراٹھانا چاہا لیکن یوں لگا جیسے وہ آنکھوں ہی آنکھوںمیں منع کررہی ہو تم جیسے لوگوںکو کوئی حق نہیں کسی کو پیار کرو تم تواحتجاج کرنے کے بھی قابل نہیں۔انسان بے حس ہو جائے تو ایسا ہی ہوتاہے۔مجھے وہ ماں بھی نہیں بھولتی جو اپنا شیر خوار بچہ سینے سے لگائے آہ و بکا کررہی ہے جس کا اکلوتا اورپہلا بیٹا اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا جس نے دنیا میں ابھی چند ماہ پہلے آنکھ کھولی، والدین نے جی بھر کر پیار بھی نہیں کیا تھا ۔۔اسے ماں باپ کی شناخت بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے قتل کردیا گیا۔۔اس کا جرم ۔۔۔گناہ اور قصور کوئی نہیں تھا پھر بھی زندگی چھین لی گئی۔۔۔ایک تصویر بار بار میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے یہ غزہ کے ایک مکان کی تصویرہے اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے مکان میں پورا خاندان زندگی کی بازی ہار گیا ان شہیدوںکی طرف غور سے دیکھا ابدی سکون چہروں سے عیاں۔آنکھیں متلاشی۔ لیکن جیسے ہم سے پوچھ رہے ہوں کیا ہمارا خون رائیگاں جائے گا کیا مسلمان اب بھی سوئے رہیں گے ؟ اب بھی نہیں جاگیں گے۔

Children Killed

Children Killed

ایک تصویرمیرے بیٹے نے اپنے لیپ ٹاپ پرد کھائی جس نے احساس کے کئی دریچے جگا دئیے یہ ماں بیٹی کی تصویرہے ایک جیسی صورتیں ۔۔بس نام اور عمرکا فرق۔۔۔دونوں کی لاشیں آنگن میں ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں جیسے ابھی سوئی ہوں چہروںپر موت کی اذیت بھی نہیں نظرآرہی تھی یہ تصویریں دیکھ کر لگتاہے یہ لاشے فلسطینیوں کے لاشے نہیں سماجی اقدار اورانسانی حقوق کے علمبرداروں کے لاشے ہیں۔یہ بے گوروکفن انسانیت کی لاشیں غزہ میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔۔یہ اس سماج کے لاشے ہیںجہاں انسان کی کوئی قدرنہیں ۔۔جہاں مسلمان ہونا جرم بن گیاہے۔جہاں فلسطینی ہونا ایک قصور ہے جس کی سزا موت ہے۔۔۔ایک اور تصویر میرے احساس کو جگارہی ہے میری آنکھیں بھیگتی جارہی ہیں میاں بیوی اپنی ننھی پری کو قبرمیں اتاررہے ہیں ان کے چہروںپر اتنا کرب ہے کہ بیاں سے باہر ہے ننھی پری اتنی پیاری کہ جیسے ابھی سوئی ہو ذرا سا شور بھی اسے جگا دے گا لیکن موت سے توحشرکے میدان میں ہی آنکھ کھلے گی مگر جلاد صفت اسرائیلیوںنے قیامت سے پہلے ہی حشر کا میدان بپا کردیا۔ ایک تصویرمیں ایک فلسطینی نے اپنے بچے کو اٹھارکھاہے اف خدایا!کس قدر خوفناک تصویرہے بچے کا آدھے سے زیادہ چہرہ ہی نہیں ہے بمباری سے جسم بھی چھلنی چھلنی ہے ڈگمگاتے قدموں سے بھی انسان سنبھلے نہیں سنبھل پاتا ۔فلسطینی کی استقامت دیدنی ہے بلاشبہ یہی بہادروں کی خوبی ہے۔

میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہاہے شاید میں بزدل ہوں جو سامنا کرنے سے ہچکچارہاہوں۔۔ایک اور تصویر میں فلسطینی خاتون اپنے دم توڑتے خون میں بھیگے زخمی بچے کو اپنی باہوں میں لے رہی ہے خاتون کے لباس پر لہوبکھرا ہواہے مامتااس کی جان بچانے کے نہ جانے کتنی تڑپی ہوگی انسانوں کا انسانیت پر اتنا ظلم۔۔کہ درندگی بھی شرما جائے غزہ میں ہونے والے حملے اور بمباری میں شہید ہونے والوںمیں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ا سرائیل دراصل فلسطینیوںکی نسل کشی کے منصوبے پز عمل پیرا ہے جو انتہائی خوفناک ایجنڈاہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا مغربی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اب سینکڑوں فلسطینی ملالہ کا خون ہورہاہے یہ سب کے سب گونگے، اندھے ،بہرے بن گئے ہیں آخر کیوں؟ انہیں وہ تصویر بھی نظر نہیں آتی جس تصویر میں چارپائی پر سات لاشیں پڑی ہیں یہ سب کے سب بچے ہیں ان کی عمریں چھ ماہ سے تین سال تک ہے یہ معصوم فرشتے ایسے پڑے ہوئے ہیں جیسے کھیلتے کھیلتے سو گئے ہوں اور جب پھر اٹھیں گے کھیلنے لگ جائیں گے۔۔

ایک ننھے فلسطینی کی لہو لہو لاش میرے تخیل میں با ربار کر سوال کرتی ہے دنیا میں52اسلامی ممالک ہیں ان کے حکمرانوںکو کیا ہوا؟ وہ کیوں کچھ نہیں کررہے؟۔۔۔ ایک چہرہ کئی بار خیالوں میں آتا رہتاہے یہ غزہ کا ایک شہیدنوجوان ہے جو پوچھتا پھرتاہے کیاہمارا خون اتنا ہی ارزاں ہے؟۔۔۔میری میز،سوشل میڈیا اور کمپیوٹرکےDedsktopپر درجنوں تصاویریں بکھری پڑی ہیں میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہوں، مجھے ڈر لگ رہاہے یہ تصویریں بار بار میرے خوابوں۔میرے خیالوں میں در آتی ہیں مجھے سونے نہیں دیتیں ۔پلکیں بوجھل ہورہی ہیں اور سر بھاری۔۔ میں سونا چاہتاہوں آنکھ لگتی ہے پھر ہڑبڑا کر اٹھ جاتاہوں میرے چاروں اطراف تصویریں ہی تصویریں ہیں غزہ کے شہیدوں کی تصویریں یہ مجھ سے بار بار سوال کرتی ہیں۔۔۔سوال عجیب و غریب سوال مسلمان قوم کب جاگے گی؟ ہمارے خون کا بدلہ کون لے گا؟ مسلم حکمران کیوں خاموش ہیں! ان سوالوں کے ساتھ ساتھ میں خود سراپا سوال بن گیا ہوںجی تو یہی چاہتا ہے دھاڑیں مار مار کر مسلم امہ کی بے حسی اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بے بسی پر رونے لگوں میرے پاس تو ہر سوال کا یہی ایک جواب ہے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی