نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک طرف تو کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد رکھے جانے کو ‘تاریخی دن’ قرار دیا، وہیں اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا کہ کرتار پور راہداری کا مطلب یہ نہیں کہ پاک بھارت دوطرفہ مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سشما سوراج کا کہنا تھا کہ ‘نہ ہم سارک میں جائیں گے اور نہ پاکستان سے مذاکرات کریں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ کرتارپور راہداری کے بھارتی حکومت کے دیرینہ مطالبے پر پاکستان نے اب مثبت ردعمل دیا ہے، تاہم کرتار پور بارڈر سے آمدو رفت کے لیے ویزا ہوگا یا نہیں، یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔
سشما سوراج کا مزید کہنا تھا کہ ملکوں میں رابطے حکومت سے حکومت کے ہوتے ہیں انفرادی نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ بھارتی وزیر سرکاری نہیں ذاتی حیثیت میں کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان آج نارووال کے قریب کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے جارہے ہیں۔
سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیے سابق بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں بھارتی وفد گزشتہ روز پاکستان پہنچا تھا۔
دوسری جانب تقریب میں شرکت کرنے کے لیے ایک اور بھارتی وفد وزیر ہرسمرت کور اور ایچ ایس پوری کی سربراہی میں براستہ واہگہ آج لاہور پہنچا ہے۔
کرتارپور کوریڈور ڈیزائن سے متعلق معلوماتی بورڈ کے مطابق کرتارپور کوریڈور فیز1 میں ساڑھے چار کلو میٹر سڑک تعمیر کی جائے گی جبکہ بارڈر ٹرمینل کمپلیکس بھی تعمیر ہوگا۔
اس کے علاوہ کرتار پور کوریڈور میں دریائے راوی پر 800 میٹر پل، پارکنگ ایریا اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے فلڈ پروٹیکشن بند بھی تعمیر ہوگا۔
دوسرے فیز میں ہوٹل اورگوردوارہ کرتار صاحب کی توسیع کی جائے گی۔
لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے۔ یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا تھا، یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نارووال شکرگڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے۔ یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے۔
گوردوارے کے انچارج سردار گوبند سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے جنگل تھا، 2000ء میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی تو سکھ یاتریوں کی آمد شروع ہوگئی، گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنویں کو ‘سری کھوہ صاحب’ کہا جاتا ہے۔
گوردوارے میں ایک لنگر خانہ بھی ہے جہاں یاتریوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔
سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔
واضح رہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک ‘درشن استھل’ قائم کر رکھا ہے جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے، تاہم پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔