کائونٹر پر بیٹھے سیٹھ کا نام ظہیر تھا یہ تین بھائی تھے گلزار سب سے بڑے تھے انہی کے نام پر یہ ریسٹورنٹ تھا منجھلے بھا ئی کا نام زبیر اور تیسرے سب سے چھوٹے ظہیر تھے جنہوں نے میری اپا ئٹمنٹ کی تھی ۔ گلزار ریسٹورنٹ پہ کبھی کبھی آ تے تھے زبیر کے ذمہ خریداری تھی آٹا گوشت دالیں سبزیاں سبھی کچھ پورا کر نے کے وہی ذ مہ دار تھے ۔ ان تینوں کے پاس ایک پرا نی ٹویٹا کار تھی جو زیادہ تر زبیر استعمال کرتے تھے رہے سیٹھ ظہیر تو وہ کا ئونٹر منیجر تھے اور انہوں نے اپنی ہیلپ کے لئے ایک کا ئونٹر کلرک رکھا ہوا تھا جو کا ئونٹر کلرک کم اور اوور آل سپر وائزر بلکہ ہیلپر زیادہ تھا ۔ اور جس ویٹر نے مجھے کھا نا کھلا یا اس کا نام بشیر تھا اور وہ ہیڈ ویٹر تھا ۔ بشیر کشمیری تھا اور کئی بر سوں سے کراچی میں مزدوری کر رہا تھا گلزار ریسٹورنٹ پر وہ سب سے سینئر ملام تھا اسی لئے وہ سبھی مالکان کا با اعتماد بھی تھا اور چہیتا بھی۔
یہ سب با تیں اس نے مجھے کھا نے کے دوران ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل پر آتے جاتے بتائی تھیں اس دوران اس نے مجھ سے بھی سیر حا صل انٹر ویو لے لیا جب میں نے بتا یا کہ میں میٹرک کا امتحان دے کر کرا چی آ یا ہوںیہ سن کر اسے بڑی حیرا نی ہو ئی مجھے محسوس ہوا کہ اسے میرا پڑھا لکھا ہو نا اچھا لگا اس زما نے میں دیہا توں میں مڈل اور میٹرک والوں کو ہی منشی عالم اور فا ضل سمجھا جا تا تھا۔ کھانا بڑا مزیدار تھا خاص طور پر گیس کے تندور پر لگا ئی ہو ئیں بڑی بڑی سر خی ما ئل پھو لی پھو لی رو ٹیاں انتہا ئی گرم اور خستہ تھیں کھا نے کے بعد بشیر نے مجھے کوک بھی پلا ئی میں نے بو تل پیتے ہو ئے پو چھا کہ کیا کھانے کے بعد بو تل بھی سارے ملاز مین کو ملتی ہے کہنے لگا نہیں یہ تو میں نے اپنے کھاتے میں آپ کو پلا ئی ہے اس وقت تم میرے مہمان بھی تو ہو ۔ کھانے کے بعد بشیر نے کہا چلیں اور میں اس کے سا تھ ہو لیا وہ مجھے ریسٹورنٹ کے پچھواڑے میں بنے ایک چھو ٹے سے کمرے میں لے گیا
جہاں دو بچے برتن دھو رہے تھے اس نے ان لڑکوں سے تعارف کراتے ہو ئے کہا صاب پڑھے لکھے ہیں ان سے بر تن دھلوانے نہیں صاف کرانے ہیں میں نے اس کی یہ بات سن کر کہا نہیں بھا ئی میں اپنے حصہ کا پورا کام کروں گا مگر ان بچوں نے مجھے کپڑے کی ایک ٹاکی دے کر کمرے میں پڑے ایک سٹول پر بیٹھنے کو کہا اور مجھے کہا کہ صاب تم بس برتن صاف کرو یہ بھی کام ہے جو ہم کرتے ہیں بچے بہت چھوٹے تھے یہی کو ئی چودہ پندرہ سا لوں کے ہوں گے مگر وہ اپنے کام میں بہت مشاق تھے ان میں سے ایک لڑکا جس کا نام روشن تھا وہ سگرٹ بھی پی رہا تھا میں نے اس سے پو چھا کہ کہاں سے ہو کہنے لگا سا ئیں خیر پور کے ایک گھوٹ سے آیا ہوں میں نے کہا کہ کب سے کام کر رہے ہو اس نے بتا یا کہ وہ سات سال کا تھا جب اس کا ابا اسے کرا چی میں ایک سا ئیں کے پاس چھوڑ گیا تھا
کچھ سال تو اس نے اس سا ئیں کے پاس گذا رے مگر جب اسے تھوڑی سنجھ آ ئی تو اس نے سائیں کا گھر چھوڑ دیا اور ہو ٹلوں میں مزدوری شروع کر دی وہ یہاں پچھلے تین ماہ سے برتن دھو نے کا کام کر رہا ہے ۔ میرے پو چھنے پر روشن نے بتا یا کہ اسے پا نچ روپے روز ملتے ہیں کھا نا اور رہا ئش مفت ہے تم سوتے کہاں ہو میں نے پو چھا ہم ہو ٹل کے اوپر چھت پر سو تے ہیں وہاں ہم نے کھو لیاں بنا ئی ہو ئی ہیں ہم سارے ادھر ہی ہو تے ہیں بشیر بھا ئی ، استاد بادشاہ اور امرتی بنانے والا رحیم بھی وہیں سو تا ہے یہ استاد باد شاہ کون ہے میں نے سوال کیا تو اس نے بتا یا کہ استاد باد شاہ اس ریسٹورنٹ کا با ور چی ہے ۔ آپ اسے نہیں جا نتے میں نے نفی میں سر ہلا یا تو دونوں لڑکے مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میرے سر پر سینگ اگ آ ئے ہوں۔
سارادن برتن صاف کرتے گذر گیا جب کام ختم ہوا اس وقت رات کے نو بچ چکے تھے جب میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ ریسٹورنٹ کے اندر تو اکا دکا لوگ کھانا کھا رہے تھے مگر با ہر بڑا رش لگا تھا جہاں ایک منخنی سا بوٹے قد کا جوان بڑی مہارت سے سمو سے ، نمک پارے اور امرتیاں بنا رہا تھا اور سیٹھ ظہیر کاو ئنٹر پر براجماں نوٹ چھا پنے میں مصروف تھے میں ایک کو نے میں کھڑاہو کر یہ تما شا دیکھنے لگا ابھی مجھے ٹھہرے تھو ڑی دیر ہی گذ ری تھی کہ سیٹھ کی چنگھا رٹی آواز سنا ئی دی اڑے یہاں ماں کا مجرا ہو رہیا ہے کیا چل کام کر یہ برتن اٹھا میزوں سے ۔ میں نے سر جھٹکا اور میزوں سے برتن سمیٹنا شروع کر دیئے ۔ ریسٹورنٹ بند ہوا تو میں بھی چھت پر چلا گیا سونے کے لئے سبھی کے پاس گدے بھی تھے اور اوڑھنے کے لئے چا دریں بھی مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا نہ کو ئی چادر اور نہ کو ئی سر ہا نہ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میرا سامان تو جما عت اسلامی کے دفتر میں پڑا ہے اس بیگ میں میری چادر بھی ہے
سو چا جا تا ہوں لے آ تا ہوں دفتر کو ئی خا صی دور نہیں تھا مگر استاد با د شاہ نے کہا چھوڑو ابھی تمہارا دفتر بند ہو گا کل لے آنا لو یہ کھیس لے لو اور سو جا ئو اسی دوران روشن نے کہیں سے دو گتے کے ڈبے ل نکا لے اور ان ڈبوں کو کھول کر پھیلا یا اور ہنستے ہو ئے بو لا کہ لو جی بستر تیار ہے یہاں آ جا ئو میں گتوں کے اس بستر پر استاد باد شاہ کا کھیس لے کر لیٹا ہی تھا کہ نیند کی دیوی نے اپنی گود میں ایسا دبو چا کہ اس وقت آ نکھ کھلی جب بشیر نے مجھے نماز کے بعد جگا نے کے لئے جھنجھوڑا دن خا صا ہو گیا تھا مگر ابھی ریسٹورنٹ میں صفا ئی ہو رہی تھی اور بہر حال صفا ئی کرنا ہم میں سے کسی کی ذمہ داری نہیں تھی۔
میں نے نیچے جا کر منہ ہا تھ دھویا سبھی لوگ پا پے اور چا ئے سے نا شتہ کر رہے تھے ہمارے ریسٹورنٹ میں نا شتہ نہیں ملتا تھا اور نہ چا ئے بکتی تھی اسی لئے نا شتے کے لئے پا پے سا منے والی بیکری سے اور چا ئے لا ئٹ ہا ئوس کے سا تھ والی گلی میں ایک ٹی شاپ سے لا ئی جا تی تھی ۔ یہ بڑی عجیب بات تھی کہ ریسٹورنٹ کے سبھی ملازم علیحدہ علیحدہ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے مگر سبھی نا شتہ اکھٹے کرتے تھے میں نے کبھی ایسا نہیں ہوتے دیکھا کہ کسی ملازم نے یہ کہا ہو کہ یار تم کرو نا شتہ میں تو کر آیا ہوں اور اس اتحادو یکجہتی کا سبب استاد باد شاہ تھا جو سب کا استاد بھی تھا اور اس چھوٹی سی سلطنت کا رحم دل اور منصف باد شاہ بھی ۔
Pakistan
استاد باد شاہ کاآ با ئی تعلق بھارت کے شہر حیدر آباد سے تھا اسی لئے استاد باد شاہ کی شخصیت میں حیدر آ بادی تہذ یب نما یاں نظر آ تی تھی ، لمبا قد ، نوک دار ترا شیدہ مونچھیں ، کڑھا ئی والا سفید کرتا اور سفید پا جا ما منہ میں پان غرض استا د با د شاہ چلتے پھرتے حیدر آ بادی تھے ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتا یا کہ ان کے دادا ، با با بھی حیدر آباد کے کسی نظام کے ہاں باور چی تھے اسی نا طے وہ بادشاہ کہلا تے تھے اور استاد تو وہ تھے ہی کہ ان کے بنا ئے ہو ئے کھانے ہی گلزار ریسٹورنٹ کا سر ما یہ تھا ۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہجرت میں سبھی خاندان والے یا تو مر گئے تھے یا پھر بچھڑ گئے تھے سو استاد جب پاکستان پہنچے اکیلے تھے عمر بھی کچھ زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی اتنے سمجھدار تھے
مال بنا نے کی سو چتے بس ایک کام آ تا تھا کھا نا پکا نا سو اپنے اسی خاندا نی پیشہ سے تعلق جوڑے پوری زند گی گذار دی نہ شادی کی اور نہ گھر بنا یا جو کما یانواب بن کے دوستوں کو کھلا دیا ، اس ریسٹورنٹ میں بھی وہ سبھی کے بڑے تھے ان کے ہو تے ہو ئے کو ئی دکھی ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اگر کو ئی ان کے آ گے اپنی ضرورت بیان کرتا جب تک اس کی ضرورت پوری نہ ہو جا تی اس وقت تک استاد باد شاہ کی بے چینی دید نی ہو تی ۔ استاد باد شاہ شو قین مزاج بھی تھے مگر صرف با توں کی حد تک ۔ اس کے بھی انہوں نے کچھ اصول و حدود مقرر کئے ہو ئے تھے کہتے تھے
چڑیل بھی دس گھر چھوڑ دیتی ہے ہمیں بھی اپنے آس پڑوس میں رہنے والوں کا لحاظ کر نا چا ہیئے ۔ چند دنوں کے بعد استاد اور بشیر کی شفارش پر کا ئونٹر کلرک کے عہدے پر تر قی ہو گئی اور میں ڈش واشر کی بجا ئے واقعی روشن کا صاب بن گیا ۔ میرے پاس شلوار قمیض کے صرف دو جوڑے تھے ایک پہن لیتا اور ایک شام کو دھو ڈالتا غالبا پا نچواں دن تھا جب مجھے استاد باد شاہ نے پو چھا کیوں صاحب آپ کے پاس کپڑے نہ ہیں کیا ،جو روز یہی کپڑے پہنے آ جا تے ہو ۔ میں نے کہا جی استاد بس یہی دو جوڑے ہیں میرا جواب سن کر استاد نے ڈبیا سے پان کی گلوری نکا لی سلیقے سے منہ میں رکھی اور بولے یار تم نے پہلے کیوں نہیں بتا یا آج چلیں گے لنچ ٹائم کے بعد ۔ میں نے استاد کی بات کا کو ئی جواب نہ دیا اور ان سنی کر دی سہ پہر کے چار بجے ہوں گے جب استاد دو بارہ میرے سر ہا نے آ کھڑے ہو ئے ، سیٹھ ظہیر کا ئو نٹر پر بیٹھے تھے اور میں ان کے سا تھ کھڑا سیٹھ کو اسسٹ کر رہا تھا استاد سیٹھ سے مخاطب ہو ئے سیٹھ ایک بیس روپے تو دیجیو ، سیٹھ نے بغیر کچھ کہے کا ئو نٹر کی دراز سے بیس روپے نکا لے اور استاد کو دے دئیے۔
پیسے لے کر استاد بو لے سیٹھ میں اور صاب ذرا لا ئٹ ہا ئوس تک ہو آئیں ابھی آ تے ہیں چو نکہ رش ختم ہو چکا تھا شا ئد اسی لئے سیٹھ نے بھی سر ہلا کر اجازت دے دی اور استاد آ ئو کہتے ہو ئے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئے ۔ لا ئٹ ہا ئوس در اصل ایک سینما کی بلڈنگ تھی جو گلزار ریسٹورنٹ سے قدرے آ گے بلدیہ آفس کے ساتھ واقع تھا اس زما نے میں یہ سینما خا صا آ باد ہوا کرتا تھا آج کا پتہ نہیں ۔ لا ئٹ ہا ئوس سینما کے سا تھ والی گلی میں لنڈے کی دکا نیں ہوا کرتی تھیں استاد با دشاہ اس لنڈے بازار کی ایک دکان پر مجھے لے گئے دوکان دار شائد استاد سے واقف تھا اس نے استاد کو بڑا پرو ٹو کول دیا اور استاد نے وہاں سے میرے لئے دو پینٹ ماوردو شرٹ خریدیں اور ایک اور سڑک کنارے پرانے جوتے بیچنے والے سے دو جو ڑے جو تے خریدے اس خریداری کا کل بل سات روپے بنا۔
با قی تیرہ روپے استاد نے مجھے دے دئیے اور بو لے یہ رکھ لو جب تنخواہ ملے گی تب مجھے یہ بیس روپے دے دینا ۔ میں نے خا صا انکار کیا کہ استاد میں اتے پیسوں کا کیا کروں گا استاد نہیں مانے کہنے لگے رکھ لو سو اوکھ سوکھ ہے بندے کے پاس پیسے ہو نے چا ہییںایک بار یار باد شاہ کو نہ معلوم کیا سو جھی کہنے لگے صاب آج رات کلب چلیں گے ۔ اب میرے ذہن میں تو کلب ایسا تھا جو میں نے کچھ رسالوں اور کہا نیوں میں پڑھا تھا یا پھر فلموں میں دیکھے تھے میں نے کہا استاد ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں وہ مسکرایا اور کہنے لگا آج رات چھٹی کے بعد چلیں گے رات کوجب ریسٹورنٹ بند ہو گیا یقریبا سبھی لوگ کلب جا نے کے لئے تیار تھے دو ٹیکسیوں میں سوار ہم سارے شیر شاہ روڈ پہنچ گئے وہاں اس زمانے میں ٹرکوں کے اڈے ہوا کرتے تھے
میں نے کہا استاد یہاں کلب کہاں ۔ وہ میری بات کا جواب دیئے بغیر ٹیکسی سے اترا اور ایک چار دیوار کی طرف بڑھنے لگا ۔ اس چار دیوار پر سیاہ رنگ کے ایک ٹین کا دروازہ لگا ہوا تھا اندر سے تیز آواز میں میوزک ک بجنے کی آ واز آ رہی تھی استاد نے دروازہ کھولا اور ہم سب اندر داخل ہو گئے اس چا ر دیواری کے بڑی سے میدان میں بیسیوں ہما چوں پر پٹھان ڈرائیور بیٹھے اور لیٹے نسوار کھا رہے تھے فضا میں سگرٹ اور چرس کی بد بو پھیلی ہو ئی تھی میں نے بڑی حیران سی نظروں سے استاد کو دیکھا اس نے ایک قہقہہ مارا اور بولا صاب یہ ہم غریبوں کا کلب ہے غریبو ں کے کلب ایسے ہی ہو تے ہیں
صاب ۔ میں چپ رہا ہم سبھی لوگ ایک خالی ہما چے پر بیٹھ گئے تحوڑی ہی دیر میں ایک سا نولے سے رنگ کے ہیجڑے نے ” ویل دی قمیض میری پا ٹ گئی اے ” گا نے پر ہمارے سا منے آکر بڑے سے بے ڈھنگے انداز میں تھر کنا شروع کر دیا میں نے دیکھا اس بڑے سے میدان میں بہت سارے ہیجڑے ڈانس کر رہے تھے مجھے وہ ما حول بڑا آسیب زدہ لگا جگہ جگہ نسوار کے تھوک کی اڑتی پچکا ریاں اور سگرٹ ،چرس کی بد بو میرے حواس معطل کئے جا رہی تھی تھوڑی ہی دیر میں چا ئے آ گئی چا ئے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا جی متلا نے لگا تھا مگر میں نے طبیعت پر جبر کر کے چا ئے کا گھونٹ بھرا ہی تھا کہ مجھے ایک زور سے ا بکا ئی آئی اور میں نے سب کھا یا پیا الٹ دیا ۔ میری یہ حالت دیکھ کر سبھی لو گوں کی انجوائیمنٹ کر کری ہو گئی اور ہم سب بڑے بد مزہ ہو کر کلب سے با ہر نکل آئے میں ۔ ۔ ۔ ۔۔ با قی آئیندہ