تحریر : شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ گذشتہ کئی سالوں کے دوران ہمارا ملک دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کا شکار رہا ہے اِس دہشت گردی کی زد میں آنے والوں میں سکولوں کے بچے، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور دوسرے کئی شعبوں کے لوگ شامل ہیں مگر اِس دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی جناب راحیل شریف کو پاک فوج کی سربراہی ملنے کے بعد ہوئی ہے جس کے بعد سے نہتے اور معصوم لوگوں کی جانیں لینے والے یہ دہشت گرداب اپنی ہی جانیں بچانے کے لئے بھاگ اُٹھے ہیں۔
تاریخ کاایک سیاہ دن 3 مارچ 2014 جس دن دہشت گردوں نے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوتے ہوئے سیکٹرF-8 میں واقع اسلام آباد کچہری پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں 12 افراد شہید اور 25 زخمی ہوئے ۔شہادت کا رُتبہ پانے والوں میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت احمد اعوان،سینئر وکیل رائو عبدالرشید سمیت دیگر وکلاء تنویر احمد شاہ، میاں محمد اسلم اور نوجوان خاتون وکیل فضہ ملک شامل ہیںجبکہ زخمی ہونے والوں میں بھی کئی وکلاء شامل تھے مگراِن زخمیوں میں شامل رائے اظہر حسین بھی تھے جنہوںنے ایک ایسا کام کیا جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
Islamabad Court Attack
اِن کے ایک دوست نے مجھے اِن کی بہادری کا قصہّ کچھ یوں سنایا کہ جب کچہری پر حملہ ہوا توجج رفاقت اعوان صاحب اپنے عدالتی امور سرانجام دے رہے تھے اِس دوران ایک دہشت گرد کمرہِ عدالت میں داخل ہوا جس نے اپنی بندوق کا رُخ نہتے جج صاحب کی طرف کیا تواُس عدالت میں پہلے سے موجودایک اور نہتے رائے اظہر حسین ایڈووکیٹ نے اُس دہشت گردکو للکارا جس پر اُس دہشت گردنے جج صاحب کو شہید کرنے سے پہلے سات گولیاں رائے اظہر حسین کو ماریں۔سات گولیاں لگنے کے بعد رائے اظہر حسین 45 دن تک کومہ کی حالت میں رہے جس کے بعد آہستہ آہستہ وہ صحت یاب ہوئے ڈاکٹرز رائے اظہر حسین کو دوبارہ رزندگی ملنے پراِسے ”جیتا جاگتا معجزہ” کہتے ہیں۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہوگا کہ ”جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے” اِس واقع کے بعد رائے اظہر حسین دوبارہ اپنے پیشہ سے منسلک ہوگئے ہیں اور اسلام آباد میں ہی وکالت کررہے ہیںاِن کی بہادری کے اعتراف میں موجودہ حکومت نے رائے اظہر حسین کو 23مارچ 2016 کو تمغہِ شجاعت سے نوازا ہے جس سے وکلاء برادری کا سر فخر سے بُلندہو گیا ہے اور رائے اظہر حسین وہ واحد وکیل ہیں جن کو اِس اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا گیا ہے یعنی رائے اظہر حسین نے یہ تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیتے ہو ئے اپنا نا م سرفہرست لکھوالیا ہے۔
ویسے چند سال قبل جب ہمارا ملک بدترین دہشت گردی کا شکار تھا تو اُس وقت بھی 12مئی 2007 ، 29اپریل 2009 کراچی میں اور وکلاء تحریک کے دوران ساہیوال کے وکلاء کو زندہ جلانے کے واقعات میںبھی وکلاء کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیںجن کو وکلاء برداری ہمیشہ یاد رکھے گی۔
Supreme Court Security
جہاں تک بات ہمارے ہاں عدالتوں کی سیکورٹی کی ہے تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معیار کی سیکورٹی کسی جگہ کی ماتحت عدالتوں میں نہیں ہے برائے نام سیکورٹی اہلکار توہر جگہ موجود ہیں لیکن ججوں اور وکلاء کی سیکورٹی سے سبھی اچھی طرح واقف ہیں جوروزانہ اللہ تعالیٰ کے سہارے کئی خطرناک اور گناہگار ملزمان کا سامنا کرتے ہیں۔
ویسے ایسی سیکورٹی کا کیا کرنا جو دہشت گردوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہے کیونکہ اِن اہلکاروں کے پاس نہ تو جدید اسلحہ ہے اور نہ ہی جدید سیکورٹی چیک آلات۔ بے شک رائے اظہر حسین کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ اور اُن کو تمغہ ِشجاعت ملنے کے بعد وکلاء برادری کا سر فخر سے بلُند ہو ا ہے مگر جو تکلیف رائے اظہر حسین نے کاٹی ہے اُس کا احوال وہی جانتے ہیں لہذا میں ایک وکیل ہونے کے ناطے اِس بات پر بھی فخر کرتا ہوں کہ ہمارے پیارے ملک کو بنانے والے بھی وکیل تھے آخر میں ،میںدُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر پاکستانی سمیت دُنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے اوررائے اظہر حسین نے جو تکلیف برداشت کی ہے اِس طرح کی تکلیف سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین