ہم نصف صدی پہلے ایک دینی سیاسی جماعت میں اس لیے شامل ہوئے کہ ہم نے دیکھا کہ قرآن شریف میں جو انبیا کی جماعتوں کا جو طریقہ کار ہے، اس دینی سیاسی جماعت کا طریقہ کار، اس طریقہ کار کے قریب تر ہے۔ جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے جتنے بھی پیغیبر اللہ کے بندوں کی اصلاح کے لیے آئے، کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم تمھاری سڑکیں بنا دیں گے۔تمھیں نوکریاں دلا دیں گے۔تمھیںیونیورسٹیاں بنا دیں گے۔تمھیں ملک فتح کر دیں گے وغیرہ۔سب نے پہلے توحید ، رسات اور آخرت کی بات کی۔کہا کہ ہم بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ تم بھی اللہ کے بندے بنو۔ یہ زندگی مہلت عمل ہے۔ اس میں جو بھی نیک بد عمل کرو گے آخرت میں اس کا اللہ کو حساب دینا پڑے گا۔ سب نے کہا کہ اس کام میں جو ہم محنت کر رہے ہیں اس کا کچھ بھی اَجر ہمیں عوام سے نہیں چاہیے ۔ہمارا اَجر ہمارے رب پاس موجود ہے۔ہم امین اور صادق ہوں۔ جو امانتیں ہمارے حوالے کرو گے ہم ان میں خیانت نہیں کریں گے۔ یعنی ہم کرپشن فری ہیں۔ہمارا کام اللہ کا پیغام تم تک پہنچانا ہے۔
تم ہماری بات مانوں گے توتمھاری دنیا بہتر ہو جائے گی۔ آخرت میں اللہ کے پاس جنت ملے گی۔اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ جب رسولۖ اللہ کے ساتھ مدینہ کے انصار کی بیعت عقبہ ثانی ہوئی، تو انصار کے کسی سیانے نے بیعت میں شامل انصاریوں سے کہا کہ تمھیں معلو م ہونا چاہیے کہ جس شخصۖ کے ساتھ تم بیعت کر رہے ہو اس کے دشمنوں سے تمھیں لڑائی کرنی ہو گی۔شکست کی صورت میں تمھاری عورتوں کولونڈیاں اور تمھیں غلام بنا لیا جائے گا۔ لہٰذا ان سے معاملہ طے کر لوکہ فتح کی صورت میںتمھیں کیاملے گا۔ جب رسولۖ اللہ سے یہ مطالبہ کیا گیا تو رسولۖ اللہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور انصار مدینہ کے وفد سے کہا تمھیں جنت ملے گی۔یعنی دنیا نہیں آخرت کی کامیابی ملے گی۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ بکریاں چرانے والے عرب دنیا کے امام بن گئے اور دولت ان کے پائوں کے نیچے ڈھیر ہو گئی۔
اس دینی سیاسی جماعت اسلامی کے سربراہ سید موددی نے ١٩٣٢ ء سے اپنے رسالے ترجمان القرآن میں بر اعظیم کے لوگوں کو حکومتِ الہٰیا کے لیے دعوت عام دی۔ حکومت الہٰیا قائم کرنے کے لیے بلا آخر ١٩٤١ء لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔اس رسالے کو مفکر پاکستان علامہ اقبال بھی باقاعدگی مطالعہ کرتے تھے۔ ہم آہنگی دیکھیے کہ علامہ اقبال نے ہی سید موددی کو حیدر آباد دکن سے پنجاب ہجرت کرکے اسی کام کے بلایا تھا۔ قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد سید موددی کو کہا کہ حکومت کو گائیڈ کریں کہ اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کا عملی طریقہ کیا ہے۔سید موددی نے ریڈیو پاکستان سے اپنی متعدد تقریروں میں حکومت کو گائیڈ کیا کہ اس طرح بتدریج اسلامی نظام حکومت قائم ہو سکتا ہے۔
جماعت اسلامی انبیا کی سنت پر چلتے ہوئے پہلے پاکستان اور اس کے بعد پوری دنیا میں حکومت الہٰیا،اسلامی نظام، نظام مصطفٰے کے قیام کا پروگرام کا بیڑا اُٹھایا۔ا س دینی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو بھی پہلے دن سے بتا دیا جاتا ہے کہ جماعت کی طرف سے نوکریں، پرمٹ اورٹھیکے نہیں ملیں گے صرف جنت ملے گی۔ اس جماعت میں لوگ اپنی آخرت بنانے کے لیے شامل ہوتے ہیں۔اس جماعت میں کوئی بھی اپنے آپ کو کسی عہدے کے لے پیش نہیں کرتا۔ اس جماعت میں شامل ہونے والے کی دولت اوردنیوی جاہ و جلال نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ تقویٰ دیکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شامل ہونے والا اللہ کی راہ میں کتنی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ا س جماعت میں شامل ہونے والا شخص کارکنوں کے اجتماع میں حلف اُٹھاتا ہے کہ وہ خالصتاً اللہ ، دین کی سربندی کے لیے جماعت میں شریک ہو رہا ہے۔
اس کے سامنے دنیوی نہیں آخرت کی کامیابی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الحمد اللہ اس جماعت کے بلدیاتی،صوبائی،قومی اور سینیٹ کے ممبرا ن، کسی قسم کی کرپشن میںملوث نہیں پائے گئے۔بلکہ چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں کہ سیاستدانوں کو آئین کی شک نمبر ٦٢۔٦٣ کی بنیاد پر اگر پرکھا جائے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی بھی پورانہیں اُتر سکتا۔پاکستان کلمہ ”لا الہ الا اللہ” کے نام سے بنا تھا۔اسی کی تکمیل کے لیے اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینے کی اسلامی نظامِ حکومت کے لیے جماعت نے سیاست کی۔ظاہر ہے کہ اسلام نظامِ حکومت کے مخالف سیکولر نظام حکومت والوں کو یہ بات پسند نہیں۔ اسی لیے پاکستان بننے کے بعد سیکولر حضرات قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ قائد اعظم کی جانشین اور پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کے لیے کو ششیں کرنے والی جماعت اسلامی کے خلاف بھی ہمیشہ محازکھڑے کرتے رہتے ہیں۔
آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک سیکولر شخص کی لکھی گئی کتاب ” میڈیا منڈی”سے آپ کو متعارف کرائیں گے۔مصنف کتاب کے ابتدائیہ میںتحریر فرماتے ہیں کہ”چند سال پہلے ایک قدیمی روزنامے( نوائے وقت) اور ایک مذہبی سیاسی جماعت کے حوالے سے جب یہ کہنا شروع کیاکہ ان کے جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ رویوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایاہے،تو بعض دوست مذہبی سیاسی جماعت کی حد تک تو اتفاق کر لیتے۔لیکن اخبار والی بات اُنھیں ہضم نہ ہوتی” حقیقت حال یہ ہے کہ جس دینی سیاسی جماعت کو پاکستان کو نقصان پہنچانے والی جماعت وہ کہہ رہے ہیں، وہ تو پاکستان کی محافظ ہے۔ وہ تو ملت اسلامیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک تحفہ ہے۔ جو جماعت اللہ کی طرف بلائے۔جو مسلمانوں کی خیرخواہ ہو۔ جو جماعت امت مسلمہ کی زندگی اور آخرت سنوارتی ہو۔ جو کرپشن فری ہو۔جو مورثی نہ ہو۔جو قائد اعظم کے وژن کی جانشین ہو۔جو مشرقی پاکستان کو ازلی دشمن بھارت سے بچانے کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑی ہو۔ اس جرم میں اب بھی پھانسیوںپر چڑھ رہی ہو۔جو پڑوسی مسلم ملک افغانستان سے اللہ کے باغی رشیا کوشکست دینے میں شامل ہو۔جو جماعت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملانے کی جنگ لڑ رہی ہو۔جو جماعت بوسینیا، برما، چیچینا بلکہ جہاں بھی مسلمانوں کو تکلیف ہوئی، وہ عملی مدد کے لیے پہنچ گئی ہو۔جو ملک میں زلزلہ سیلاب قدرتی آفات پر پاکستانیوں کی مدد کرنے کے سب سے پہلے پہنچتی ہو۔ جو پاکستان میں سب سے بڑی این جی اوز الخدمت فائونڈیشن چلا رہی ہو۔جس سے طالب علموں، یتیموں، بیوائوں اور بے سارا عوام کی کی مدد کی جارہی ہو۔
اس جماعت کے لیے کہا جائے کہ اس کے جذباتی اور غیر پسندانہ رویوں کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ کتاب کے منصف اور ان جیسے سیکولر، لبرل اور روشن خیال قائد اعظم اور پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کے دشمنوں اور بیرونی ایجنڈے پر ناچنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ، بانی پاکستان کے وژن اور نظریہ پاکستان کے مخالفوں اور قومیتیوں کے پرچارکوں کی وجہ سے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔اب بھی پاکستان میں یہی گماشتے ملک میں قومیتوں کا زہر گھول کر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔لگتا ہے مصنف بھی ہندوئوں سے نرم رویہ اور بھارت کے سیکولر بیانہ کو کسی حد تک نرم ہاتھ رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ سیکولرسٹوں کو جماعت اسلامی سے دشمنی اس لیے ہے کہ جماعت نے رشیا کی مدد سے ایشیا سرخ کے جھنڈا اُٹھانے والوں کو سیاست، تعلیمی اداروں اور مزدور تحریک میں نظریا تی شکست فاش دی تھی۔ یہ تھالی کے بیگن پہلے رشیا کے پیسوں پر پلتے تھے ۔رشیا کی شکست کے بعد اب یہ امریکا کی جھولی میں بیٹھ کر پاکستان کی جڑیں کھوکلی کر رہے ہیں۔ اگر ان کو دن کی روشن میں سورج نظر نہیں آ رہا ہو تو ان سیکولرز، سوشلسٹ اورروشن خیالی پر ماتم ہی کیا جا سکتاہے۔
قدیم اخبار نوائے وقت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حمید نظامی نے قائد اعظم کے کہنے پر ہفتہ وار سے روزنامہ بنایا تھا۔ یہ اخبار قائداعظم کے دوقومی نظریہ اورنظریہ پاکستان کامحافظ ہے۔جس نے نواز شریف سے کہا تھا کہ اگر تم نے ایٹم بم کا دھماکہ نہ کیا توعوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔مصنف نے مجید نظامی سے انٹر ویو میںمجید نظامی سے کہا کہ آپ کا نظریہ پاکستان کا بیانیہ جماعت اسلامی سے ملتا ہے۔انہوں نے جواب میں کہا کہ جماعت اسلامی نظریہ پاکستان کی محافظ ہے۔ بس شکایت یہ ہے کہ جماعت ١٩٤٦ء میں غیر جانب دار رہی۔ ہاںنوائے وقت کے ایک سوشلسٹ مدیر چوہدری ر حمت اللہ اسلم( سی آر اسلم ) نے نظریہ پاکستان کی محافظ نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے جماعت کو پاکستان دشمن ثابت کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش کی مگر جماعت اسلامی بتدریج کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ نوائے وقت کی بانی حمید نظامی کے بیٹے اور مجید نظامی کے بھتیجے ،عارف نظامی اپنے آبائواجداد کے نظریہ پاکستان کے نکتہ نظر سے ہٹ کر سیکولر اور لبرلر اور روشن خیال بن گئے ہیں۔ مصنف نے اپنا ہم خیال ہو نے کی وجہ سے حمائیتی نظر آتے ہیں۔
ہمارے نذدیک مصنف نے اپنے اندر اسلام سے چھپی عداوت کو خوامخواہ اس معلوماتی اور محنت سے تیار کی گئی تصنیف کے دیباچہ میں جگہ دے کر کتاب کو متنازہ بنا دیا ہے۔ مصنف نے پاکستان کے اُردو اور انگریزی اخبارات کے متعلق معلومات کا خزانہ جمع کر کے پاکستان کے عوام کے لیے سوچ بچار کرنے کا مواد مہیا کر دیا۔اخبارات کے مالکان کے انٹر ویو کے ذریعے ان کی اندر کے جھگڑے بھی بیان کیے ہیں۔نام ور کالم نگاروں سے تیکھے سوال کر کے ان کا پلاٹ حاصل کرنا بھی عوام کے سامنے پیش کیا ۔سیکولر، لبرل اور روشن خیال کالم نگاروں کے متعلق تفصیل بھی مہیا کی۔پاکستان کو نقصان اور پاکستان کو اپنی اسلامی منزل سے ہٹانے والے سیکولر، لبرل اور روشن خیال، پاکستان کی ترقی میں حصہ نہ لینے والے پاکستان مخالف کالم نگاروں کا بھی عوام کو پتہ چلا۔اسلام پسند کالم نگاروں کو رجعت پسند اور جذباتی ٹھیرا کر،مصنف کی جانبداری بھی سامنے آئی۔کالاباغ ڈیم کی حمایت کرنے والے عناصر کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے صوبے اس کے خلاف ہیں ان کے مؤقف کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔جبکہ کہ بھارت نواز سیکولر لکھاریوں ،قوم پرست سیاست دانوںاور آزاد خیال حلقوں کے لیے، بھارت کی طرف سے کالا باغ ڈیم نہ بننے کی مہم چلانے والوںکے لیے اربوں روپے تقسیم کرنے کے الزام بھی لکھتا رہا ہے۔ قومی زبان اُردو کو سرکاری زبان بنانے اور پاکستان کی مقامی زبانوں پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی۔آخر میں حوالہ جات درج کر کے کتاب کو ایک دستاویز کی شکل دینے میں کافی محنت کی ۔
اے کاش! کہ میڈیا سمیت ہم سب پاکستانی ،شاعر اسلام حضرت شیخ محمد اقبال کی طرف سے بیان کردہ اپنی ماضی کی شاندار تاریخ سے سبق حاصل کریں۔شرمندہ ہونے کے بجائے اس پر فخر کرکے کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کے داعی بن جائیں۔ اپنے پیارے پاکستان کی ترقی اور عظمت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ دنیا کے سارے ازم ،سیکولر، لبرل، سوشلسٹ اور سرمایا دارانہ، سب پیٹ پوجا کا درس دیتے ہیں ۔ پاکستانیوں کو ان سب ازموں سے کنارا کش ہو کر اپنے پیارے پیغمبرۖ کے بتلائے ہوئے طریقوں پر چل کر اپنی دنیا اورآخرت کی فکر کریں۔ بھارت ہمیں ختم کر کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے رکھتا ہے۔
پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اب پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا۔ آزاد کشمیر پر حملہ کر بزور قوت اسے بھارت میں ضم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ ایسے بھارت کو دشمن اوّل سمجھیں۔ اللہ کی طرف سے انعام ، علامہ اقبال کی سوچ، قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی محافظ، دینی سیاسی جماعت اسلامی جو کرپشن فری ہے ۔جو مورثی نہیںہے۔ مسلمانوں کی پشتی بان ہے۔بہت بڑا ویلفیئر کا نیٹ ورک چلا رہی ہے۔ اس پر ناروا تنقید اورمخالفت کی بجائے اس کی مدد کریں۔ پاکستان کو بچانے کے لیے اللہ کے دین پر جمع ہو کر یک جان ہو جائیں۔ایٹمی میزائل طاقت پاکستان کو مذید طاقت ور بنائیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔