اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی صحافتی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے حکومت کے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس بل کو پاس کرنے سے باز رہے بصورت دیگر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ وارننگ قومی اسمبلی کے ایک ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جو جمعرات دو ستمبر کو پیمرا کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس بل کے حوالے سے کچھ اہم نکات کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد میڈیا کارکنان کے حقوق کا دفاع کرنا اور جعلی خبروں کی روک تھام ہے۔ جبکہ اتھارٹی کے قیام کے بعد بہت سارے اداروں کو ضم کر دیا جائے گا اور میڈیا سے متعلق کئی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹایا جائے گا۔
تاہم صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت بل اس لئے لا رہی ہے تاکہ اختلافی آوازوں کو دبایا جاسکے اور ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا سکے، جس کی صحافتی برادری بھرپور مزاحمت کرے گی۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت پر یہ بات واضح کی ہے کہ وہ اس بل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کریں گے اور ہر محاذ پر مخالفت کریں گے۔
اس بل کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اس پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری مخالفت کر چکے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے ایک رہنما جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “یہ بل پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے مارشل لا ہے اور یہ بالکل غیر آئینی ہے جس کی ہم ہر سطح پر مخالفت کریں گے۔ صحافیوں کے ایک وفد نے مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف ایسی کسی بھی قانون سازی کی ڈٹ کر مخالفت کر رہی ہے بلکہ ایسی صحافت دشمن سوچ کی مذمت بھی کرتی ہے۔ یہ اتھارٹی صحافیوں سے ان کا قلم، ضمیر کی آواز کو قتل کرنے کے لیے، جرمانے اور لالچ سے لیس شقوں پر مشتمل ہے۔”
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “اس بل کا مقصد حکومتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس بل کے ذریعے اخبارات کی کلیکشن کو مشکل بنایا جارہا ہے، صحافیوں کو سزا دی جا رہی ہے اور یوٹیوب چینلز کے قیام کو بھی نا ممکن بنایا جا رہا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کی صحافتی برادری اس مجوزہ بل پر سیخ پا ہے اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتی ہے۔ “ہم 13 ستمبر کو ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کریں گے اور اس میں ملک بھر کی سیاسی جماعتیں بھی ہمارے ساتھ ہوں گی اورسول سوسائٹی بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔”
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رکن فیڈرل ایکٹ کمیٹی ناصر ملک کا کہنا ہے کہ یہ بل دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اختراع ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “فواد چودھری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ بل بس خیال کی حد تک ہے اور یہ کہ اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا لیکن میری اطلاعات یہ ہیں کہ اس بل کو باقاعدہ وزارت قانون کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور حکومت ہر حالت میں اسے پاس کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘
ناصر ملک مزید کہتے ہیں، ”جنرل مشرف کے دور سے اس طرح کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماضی میں صحافتی تنظیموں کی مذمت کی وجہ سے ان کو اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت بالکل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتی ہے۔”
ان کے بقول “اس قانون کے ذریعے پوری میڈیا انڈسٹری کو ایک 21 گریڈ کا آفیسر کنٹرول کرے گا اور پوری میڈیا انڈسٹری سرکار کے دیے گئے احکامات پر عمل کرے اور ان کی گائیڈ لائنز کو تسلیم کرے۔”