الوداع خادم حرمین شریفین عبداللہ بن عبدالعزیز

Abdullah bin Abdulaziz

Abdullah bin Abdulaziz

تحریر: باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
بے شک اس دنیا میں جو بھی آیا اسے اس جہان فانی سے جانا ہے بڑے بڑے انبیاء اولیاء اللہ اکابرین آئے اور اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ جانا تو واقعی سب نے ہے مگر امت مسلمہ کا ایک ہمدرد جس نے حلم برد باری سے اپنی قوم کو مشکل سے نکالا اور مشکل کی ان طویل گھڑیوں میں ایک دیدہ ور کی کا کردارادا کیا وہ آج ہم سے رخصت ہوئے ۔ خادم حرمین شریفین عبداللہ بن عبدالعزیز٩١ برس کی عمر پا کر رخصت ہوئے۔بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹنے والے ہیں۔ان کی موت کی خبر پوری دنیا میں افسوس سے سنی گئی۔میرا تعلق مملکت خدادداد سعودی عربیہ سے ١٩٧٧ سے ہے میں نے اس ملک کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھتے دیکھا ہے میں شاہ خالد کے زمانے میں جدہ گیا تھا

پھر شاہ فہد جنہوں نے خادم حرمیں شریفین کا لقب اختیار کیا ان کا طویل دور حکومت دیکھا ان کی رحلت کے بعد خادم حرمین شریفین عبداللہ کا دور حکومت بھی دیکھنے کو ملا۔آج میں پاکستان میں ہوں۔علی الصبح سوشل میڈیا سے ان کی رحلت کی خبر سنی۔ہمارے ہاں تو ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جمعے کی رات کو جو اس دنیا سے رخصت پاتا ہے وہ جنتی ہوتا ہے اللہ تعالی ایسا ہی کرے۔میں نے پاکستانی میڈیا کو دن بھر دیکھا ان کی وفات پر اظہار افسوس تو ہے

ہی مگر کسی ایک چینیل نے بھی ان کی حیات پر تفصیلی روشنی نہیں ڈالی بس یہی دکھایا گیا کہ وہ ١٨ ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک تھے اور دنیا کے امیر حکمرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ہمارے میڈیا میں تحقیقی صحافت کی کوئی بات نہیں کرتا۔میرا دل چاہتا ہے میں اپنے تیس سالہ سعودی عرب کے قیام میں ان کی خدمات پر گفتگو کروں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ خادم حرمین شریفین عبداللہ نے کیا کیا کام کئے۔ مجھی سب سے پہلے یہ بتانا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جو انقلابی کام ملک فہد نے انجام دیے تھے اور تاریخ کی سب سے بڑی توسیع مدینہ منورہ میں ان کے دور میں ہوئی تھی اسے اس سے بھی زیادہ خادم حرمین نے تعمیرات کیں۔خصوصا مکہ مکرمہ میں حرم کی داخلی توسیع کی ترکوں کے زمانے کی اندرونی عمارت کو گرا کر طواف کے لئے دو منزلیں الگ سے بنوائیں

جس سے بزرگ زائرین کو بے پناہ سہولت حاصل ہوئی نہ صرف اندرونی حصے میں بلکہ خاربی طور پر ایک بڑی عمارت بنا کر اللہ کے مہمانوں کو سہولت بہم پہنچائی میں راولپنڈی میں بیٹھ کر چند ماہ پہلے کی صورت حال کو دل کے قریب محسوس کرتا ہوں کہ حرم میں ان گنت کرینیں کام کر رہی ہیں اور مجال ہے زائرین کو کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو۔کلاک ٹاور دنیا کے عجعبعں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔حاجیوں کو جو عاسلی شان عمارتیں میسر ہو رہی ہیں یہ انہی کی حکومت کا کارنامہ ہے۔اب مکہ مکرمہ میں کوئی ایک عمارت نہیں بچی جو جدید طرز پر تعمیر نہ کی گئی ہو۔سرنگوں کے جال بچھا دیے گئے ہیں اور حجاج کرام کو بہترین سہولتیں پہنچا دی گئی ہیں۔
خاد حرمین کے دور میں جدید سعودی عرب دیکھنے کو ملتا ہے خواتی کی تعلیم کے لئے دنیا کی سب سے بڑی جامعہ بنائی گئی ہے۔

ملک فہد کے دور میں سعودی عرب کو دو بڑی جنگوں کے اثرات سے نکلنا پڑا ایک عراق ایران جنگ اور دوسری حرب خلیج تھی ۔عبداللہ بن عبدالعزیز کو دہشت گردی کی جنگ کا سمان رہا اور انہی کے دور میں نائن الیون کا سانحہ پیش آیا جس نے پوری دنیا کو عموما مگر عالم اسلام کو خصوصا ہلا کر رکھ دیا۔ یہ انہی کی ہمت تھی کہ وہ اس سے بڑی ہشیاری سے نکلے بہت سے لوگ ان پر تنقید کرتے رہے خصوصا پڑوسی ملک کی لابی ان پر تابڑ توڑ حملے کرتی رہی لیکن وہ بڑے زیرک سیاست دان کی طرح اپنے آپ اور اپنے ملک کو نکال کر لے گئے گرچہ اس کے اثرات سے نئے خادم حرمین کو بھی نپٹنا ہے لیکن جانے والے ان کے لئے مضبوط بنیادیں فراہم کر چکے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

دوسال پہلے عرب سپرنگ سے جس طرح عبداللہ بن عبدالعزیز نکلے یہ انہی کا حوصلہ تھا۔انہوں نے اپنی نوجوان نسل کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے سعودی نوجوان بہترین مشاہروں پر بے روزگاری کے چنگل سے نکل گئے۔یہ بڑی ماہرانہ کوشش تھی جس کا سہرہ وزیر محنت اور خادم حرمین کے سر جاتا ہے۔یہ وہی دور تھا جب ملک پاکستان میں بھی کھلبلی مچ گئی اور ایک لابی نے شور مچا دیا کہ سعودی عرب سے پاکستانیوں کو نکالا جا رہا ہے۔میں نے اس وقت بھی قلم اٹھایا اور پاکستانیوں کو آ گاہ کیا کہ یہ سب کچھ سعودی عرب اپنے داخلی حالات پر گرفت رکھنے کے لئے کر رہا ہے۔بہت سوں کو سمجھ آ گئی اور کچھ نے وہی روش اپنائی جو وہ ایک مخصوص سوچ کے حامل لوگ رکھتے ہیں۔

مملکت پر یہ بہتان لگایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے داخلی حالات کو خراب کرنے میں ایک مخصوص مکتب فکر کی مدد کر رہی ہے میں نے تحقیق کی تو مجھے ان کے پیچھے ایک لابی نظتر آئی جو اس ملک میں مادر پدر آزاد معاشرے کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔سعودی عرب کی اپنی آبادی تین کروڑ کے قریب ہے اس سے دگنی آبادی کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو اس ملک میں ملازمتیںحاصل کرنے آئے ہیں۔دوسال پہلے انہی لوگوں کو سعودی حکومت نے تنظیم کے تحت لانے کی سعی کی۔جس سے بہت سے لوگوں کو ملک چھوڑنا پڑا۔یہ بڑے منظم انداز میں کیا گیا لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ آزاد گھمنے پھرنے کی بجائے مختلف کمپنیوں میں کھپ جائیں اور وہی کام کریں جو ان کے سکونتی اجازت نامے(Residence permit) یعنی اقامے پر لکھا ہے۔قبل ازیں کوئی اگر انجینئر ہے

تو وہ حجام کے اجازت نامے پر انجینئر کا کام کر رہا ہے۔خادم حرمین نے مقامی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ تیس فی صد سعودیوں کو ملازمتیں دیں۔یقین کریں اگر بلوچستان میں یہی کام ہماری حکومت کرے تو بندوقیں اٹھانے والے روزگار حاصل کرنے پر باغیوں کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ خادم حرمین نے جہاں سعودی عرب کے طول و عرض میں خواتین کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے انہوں نے ان کے لئے سعودی کمپنیوں میں ملازمتوں کے انبار لگا دیے۔دفاتر میں ان کے لئے بیٹھنے کا با پردہ انتظام کیا۔جس سے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی سعودی خواتین ہر شعبے میں مردوں کا مقابلہ کرتی نظر آئیں گرچہ وہ شانہ بشانہ نہ تھیں اس لئے کہ ان کے دفاتر مردوں سے الگ تھے۔اس بار جب میں اپنی کمپنی میں گیا تو وہاں خواتین سے رابطہ رہا مگر فون کے ذریعے۔

خادم حرمین نے تمام غیر ملکیوں کو اسلامی روایات سے بڑے اچھے انداز سے روشناس کیا۔ وہاں کے شدت پسند علامء کو بڑی حکمت سے اسلام کے نرم رویوں سے آشناء کرایا جس کے نتیجے میں مملکت میں کام کے لئے آنے والوں نے اسلام کی اس تصویر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔خادم حرمین کو احساس تھا کہ وہ متشددانہ طریقوں کو اپنا کر مملکت کا شیرازہ نہیں بکھرنے دیں گے۔ان کی خوبصورتی یہ تھی کہ وہ بدوئوں کے ہر دل عزیز رہنماء کے طور پر ابھرے۔

جدیدیت کے اس دور میں وہ عرب روایا ت کے امین تھے جنادریہ کے سالانہ میلے میں تلوار پکڑ کر عرب رقص کر کرے وہ بادیہ عرب کے امین نظر آتے تھے۔علماء اور مشائخ کے ساتھ ان کا رویہ مشفقانہ ہوتا تھا۔انہوں نے سعودی عرب کو جدید یت سے متعارف کرایا آج وہاں کی شاہراہوں پر پولیس کم کم نظر آتی ہے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ٹریفک کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔انہوں نے نئے نظام متعارف کرا کر سعودی عرب کے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جو جو بس اپنا نام دے کر بے کار بیٹھ کر بتہ وصول کیا کرتے تھے۔

ان کی موت سے پاکستانی کمیونٹی میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔یہ بہت اچھا ہوا کہ بیک وقت پاکستانی وزیر اعظم اور بڑے اپوزیشن لیڈر نے سعودی عوام کے دکھ میں شرکت کی ہے۔یقینا جو اس جہاں میں آیا ہے اس نے جانا بھی ہے۔نئے فرماں روا سعودیوں میں بڑے مقبول ہیں وہ ریاض کے میئر اور گورنر رہ چکے ہیں ریاض بدو معاشرے کی علامت ہے منطقہ قصیم اس معاشرے کا گڑھ ہے جو ریاض کے قریب ہے۔ان سے مجھے ٢٠٠٤ میں ملنے کا موقع ملا تھا میں نے انہیں پاکستانیوں کے لئے شفیق پایا تھا۔

یقینا پاکستان کی اس ملک کے لئے بڑی اہمیت ہے۔پاکستان سعودی افواج کو تربیتی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔دونوں ملکوں میں پیار محبت کے طویل سلسلے ہیں وہاں کی کمیونٹی عربوں میں گھل مل گئی ہے اب تو وہ پاکستانی ہوٹلوں کی فلفل سے بھی آشاناء ہو چکے ہیں اور مجھ جیسے قدیم مقیمین سے کوئی پوچھے تو لحم مندی سے بڑکرکوئی ڈش نہیں۔ان بطنی لوازمات سے ہٹ کر لا الہ الل اللہ کا رشتہ ان برادر ممالک کو جوڑے ہوئے ہے جانے والے خادم حرمین کو الوداع اور نئے آنے والے کو مرحبا۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : افتخار چودھری