میڈیا ہاؤسز پر حملہ، سندھ رینجرز کی جانب سے منظم کارروائی قرار

Bilal Akbar

Bilal Akbar

کراچی (جیوڈیسک) سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل بلال اکبر نے کراچی میں گزشتہ پیر کو پیش آنے والے واقعات کو منظم کارروائی قرار دیا ہے۔

کراچی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جانب سے کی جانے والی پاکستان مخالف تقریر، اس کے ذریعے اشتعال انگیزی اور بعدازاں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر اور ’سماء‘ کی ڈی ایس این جی کو نشانہ بنانا منظم کارروائی کا حصہ تھا۔

بلال اکبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ اس منظم کارروائی کی تحقیقات جاری ہیں۔ 22 اگست کو متحدہ کی ٹیم وفاقی اور صوبائی حکومت سے مذاکرات کر رہی تھی۔ لیکن دوپہر سے ہی پریس کلب اور اس کے اطرافی علاقوں میں مختلف سیکٹرز اور یونٹس کے کارکن اکٹھے ہورہے تھے۔ الطاف حسین نے پاکستان مخالف تقریر کرکے لوگوں کو اشتعال دلایا جنہوں نے نجی ٹی وی کے دفتر جاکر توڑ پھوڑ شروع کردی۔‘‘

ڈی جی سندھ رینجرز نے کہا کہ ’’کراچی پریس کلب سے مدینہ سٹی مال میں واقع اے آر وائی کے دفتر تک کے راستے میںدو بینک ہیں جن میں متحدہ لیبر ڈویژن کے کارکنوں نے میڈیا پر حملہ کروانے کے لیے لڑکےجمع کیے ہوئے تھے۔ بینک کے افسران متحدہ کے کارکنوں کے لیے سہولت کاری کررہے تھے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ’’ واقعے سے قبل بھی متحدہ کے 6 کارکن بینک میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کے پاس اسلحہ اور ڈنڈے تھے۔ گرفتار لوگوں نے گولیاں چلانے والوں کے نام بتا دیئے ہیں، ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ کارروائی کے لیے ڈنڈے کون لایا تھا اور فائرنگ کس نے کی، اسلحہ کون لایا۔‘‘

بلال اکبر کے مطابق گرفتار افراد نے مفرور ملزم بلند خان کو شناخت کر لیا ہے۔ واقعے میں ملوث 6 ملزمان کو پولیس کے حوالے کیا جارہا ہے جو انہیں عدالت میں پیش کریں گے۔

واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں اب تک 45 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں 3 خواتین بھی شامل ہیں۔

ادھر ایک اور اطلاع کے مطابق اس واقعے پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس میں ذرائع کےحوالے سے بتایا جارہا ہے کہ جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کی وجہ سے کیا گیا جبکہ مختلف خفیہ اداروں کے افسران بھی جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کارروائی منظم نہیں تھی، ہم تو خود ’شاک‘ میں تھے۔ان کے بقول، ’’22اگست کے واقعے کا طے شدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم، جو لوگ بھی اس واقعے میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے‘‘۔