الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا یقینی طورپر بقول جانے و آنے والے حکمرانوں کے لحاظ سے آزاد ضرور ہوئی لیکن اس کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا جس کی مثالیں حد تک دی جاسکتی ہیں ،تاہم اس سے پہلے میڈیا کے متعلق اصل مفہوم کی طرف روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ میڈیا ابلاغ عامہ ہے کیا اور اس کو آزا دکیوں رکھا جاتا ہے۔
دراصل میڈیا مکمل طور پر غیر جانبدارانہ حقائق سے برعکس اپنی تشہیر کرے گی تومیڈیا آزاد ہرگز نہیں کہلائے گا۔ اس کے علاوہ آزا دمیڈیا ،آزاد اظہار رائے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ قواعد وضوابط کی پاسداری کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اس طرح آزا د میڈیا اور آزاداظہار رائے تو ضرور ہے مگر اس کے اثرات میڈیا پر سخت تنقید کے باعث ثابت ہورہے ہیں، آزاد میڈیا اور آزاد اظہار رائے کے قواعد وضوابط کیا ہیں اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔
مختصراً پاکستان کے تمام علاقائی باشندوں کی طرز زندگی ، معاشرہ، تہذیب اور کارہائے نمایاں کی اس انداز میں عکاسی کرنا کہ قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہو، پاکستان کے باشندوں کی معلومات میں اضافہ کرنا ، تعلیم اور تفریح مہیا کرنے پاکستان کی طرز زندگی کی بامقصد ترقی میں معاونت اور تشہیر کرنا۔
آج سے تقریباً 30سال قبل یوں تو صحافت میں صدیاں بیت گئیں تاہم میں اپنے ہوش کے حوالے سے اس بات کا ذکر کررہا ہوں یعنی میری مراد اس وقت کی جب ریڈیو ، ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات یعنی صرف ایک پاکستانی ٹی وی چینل ہمارے سامنے موجو دتھا جس کی نشریات میں مختلف پروگرام کے علاوہ آنے والی خبروں کیلئے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ بعض اوقات ٹی وی نشریات منقطع ہوجانے پر ٹی وی چینل ناظرین سے معذرت کے ساتھ یہ لکھا ہوا آتا کہ انتظار فرمائیے، بہرحال شائقین انتظار کرتے رہتے تھے اور حقیقت یہ ہے۔
ٹی وی پر آنے والی خبروں کے اثرات اس طرح عوام پر اثر کرتے تھے کہ لوگ کئی کئی دنوں زیر بحث موضوع بنے رہتے اور ان پر تبصرہ اور بعض خبروں پر حیرانگی ظاہر کرتے جو نشریات ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات پر مبنی ہوتی۔ اب موجودہ خبروں اور پروگرام کی نوعیت یہ ہے کہ بے شمار ٹی وی چینلوں کی تعداد موجود ہیں لیکن ان کا اثر عوام پر نہیں پڑتا بلکہ مختلف چینلوں کے متعلق مختلف قسم کی قیاس آرائی سننے میں آتی ہیں جوکہ صحافت سے قطعی تعلق نہیں رکھتی، جبکہ صحافت کو چوتھا ستون قرار دیا گیاہے ، صحافت یعنی میڈیا انسان کا دوسرا روپ ہے۔
Journalism
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور اس لئے اس کو اہمیت دی گئی ہے کہ وہ عوام کی حقیقی ترجمانی کرے، پہلے زمانے میں لوگ میڈیا کے ذریعے معاشرے میں بے تحاشہ انقلابی تبدیلیاں لائے اور اس کے ذریعے لوگوں میں اعلیٰ شعور اُجاگر کیا جبکہ اس وقت چینلز کا وجود بھی نہیں تھا صرف پرنٹ میڈیا ، اخبارات کے حوالے سے اپنا کام انجام دیا کرتے تھے جبکہ صحافی حلقوں نے اخبارات کو اس انداز میں متعارف کرایا جو ان کا کردار لائق تحسین ہے، اخبارات کے مالکان کا مقصد اخبارات کو محض چھپوانا نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کی دلچسپی ، محنت، لگن، سوچ ، فکر کا یہ عمل تھا کہ اخبارات کے مالکان اور ان کے ہمراہ کام کرنے والے لوگ خود اس کی ادارت کرکے خود ہی کتابت اور حتی کہ ہاکر کا بھی کردار ادا کرتے تھے۔
معاشرے میں پیش آنے والے واقعات و حالات کی صحیح عکاسی، سچ اور حقائق پر مبنی اپنی تحریر اور رپورٹیں اخبارات میں چھپواتے جس کااثر لوگوں میں اس قدر ہوتا تھا کہ لوگ ان کی سچائی پر مبنی خبروں اور اشاعت پر اطمینان کااظہار کرتے، بقول ایک سینئر صحافی کہ ہمارے دور میں جب اخبارات میں عوامی مسائل پر مبنی کسی ادارے کیخلاف مراسلہ شائع ہوتا تھا تو فوری طورپر متعلقہ ادارے اس کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے مسائل حل کرتے تھے اس کے علاوہ اس وقت کے صحافی حضرات و فوٹو گرافراپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کرکے معاشرے کی صحیح عکاسی کرتے جس سے لوگوں میں یعنی قارئین میں ذوق وشوق بڑھتا رہتاتھا۔
جبکہ اس وقت پرنٹ میڈیا کا دور تھا اور کم تعداد میں اخبارات چھپتے تھے لیکن آج کے حالات ہم دیکھتے ہیں تو ہماری سوچ منتشر ہوجاتی ہے کہ اس وقت ذرائع حاصل کرنے کیلئے کوئی جدید سہولت موجود نہیں تھی مگر آج جدید سہولت ہونے کے باوجود اور کئی تعداد میں چینلز الیکٹرانک میڈیا اور سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات ،ر سالے موجود ہیں جس کو ادارہ کا نام دیا گیا ہے میرے نزدیک ادارے وہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیںجو قواعد وضوابط کی پاسداری ان کا نصب العین ہوتا ہے۔
یعنی اخبارات، الیکٹرانک میڈیا میں اضافہ ضرور ہورہا ہے اور روزانہ اشاعت جاری ہے، اخبارات میں کام کرنے والے لاکھوں افراد جس کا روزگار وابستہ ہے مثلاً اخبارات کو بنانے والے، چھاپنے والے، بائنڈنگ کرنے والے ،اخبارات کو ایک جگہ سے دوسرے شہر منتقل کرنے والے افراد پھر اس کے بعد اخباری نیوز پیپر ایجنٹ اور ہاکروں کے علاوہ اسٹالوں پر فروخت کرنے والے افراد اس صنعت سے اپنا روزگار کمارہے ہیں۔ شروع کے دوران نکلنے والے اخبارات آج دیوار سے لگے ہوئے ہیں اور بہت سے اخبارات منظر عام پر ہیں لیکن بعض اخبارات کی پالیسیاں قواعد وضوابط سے ہٹ کر چل رہی ہیں جس سے اخبارات تو چھپ رہے۔
ہیں مگر ان کا عوام پر اچھا اثر نہیں پڑرہا ہے ، لہٰذا ہمیں اس ستون کو مقدس پیشہ سمجھ کر اس کیلئے وہ انقلابی تبدیلیاں لائیں جس سے معاشرے میں بسنے والے لوگ اس کی اہمیت کو اپنا نصب العین بنائیں تاکہ صحافت اصولوں پر قائم و دائم رہے ، اور صحافتی ادارے سے وابستہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا مالکان صحافی حضرات ، نیوز پیپر ایجنٹ، ہاکر اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی صلاحیتوں کا ایماندار ی، محنت، ، لگن اور جفاکشی سے اپنے اور بچوں کی کفالت کیلئے کام انجام دیتے رہیں۔ اسی طرح معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونگی اور قوم خوشحالی اور ترقی کی طرف گامزن رہے گی کیونکہ سچ اور حق حقیقت ہے۔
Journalism
جسے کوئی نہیں جھٹلاسکتا ، اس لحاظ سے صحافت کو انسان کا دوسرا روپ اس لئے کہا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے جتنے اعضاء ان کے مکمل ہونے سے انسان کہلاتا ہے اسی طرح صحافت میں کام کرنے والے سب افراد بااصول وکردار سے ہی صحافت مکمل کہلائے گی۔