تحریر: شیخ توصیف حسین یہ لفظ میں نے گزشتہ دنوں فیصل آباد ایگری کلچر یونیورسٹی کے وائس چانسلر جس نے اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے نہتے صحافیوں پر اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ظلم و ناانصافی کی تاریخ رقم کر کے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا کی زبانی سنا تو میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگا کہ جو وائس چانسلر ہونے کے باوجود صحافت کی عظمت کو نہیں سمجھتا وہ بھلا اپنے طلباء و طالبات کو کیا تعلیم دیتا ہو گا تاریخ گواہ ہے کہ 1947سے قبل انگریز اپنے دور حکومت میں کسی کم ظرف خاندان کے فرد کو اعلی عہدے پر فائز نہیں کرتے تھے لیکن افسوس کہ 1947کے بعد وطن عزیز میں گنگا ہی اُلٹ بہنا شروع ہو گئی کم ظرف خاندان کے افراد جن سے انگریز قوم بات کر نا بھی اپنی توہین سمجھتی تھی اعلی عہدوں پر فائز ہو کر فرش کے خدا بن بیٹھے جبکہ اعلی ظرف خاندان کے افراد اپنی شرافت اور ایمانداری کیوجہ سے گم نام ہو کر رہ گئے تو آج میں یہاں اُس وائس چانسلر جو اپنے آ پ کو اعلی جبکہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے کو میڈیا جو در حقیقت ایک پیغمبری پیشہ ہے کے متعلق آگاہی دینا چاہتا ہوں کہ یہ سچ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس مقدس و اعلی پیشہ کو زمانے بھر میں رسوا اور بدنام کر نے کیلئے لاتعداد یو نیورسٹیوں و کالج مالکان کے علاوہ ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اُنھیں ٹی وی چینل و اخبارات نکالنے کے اجازت نامے جاری کر نے میں اپنا اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں نام نہاد صحافی اس مقدس پیشے پر ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے جبکہ یہ بھی ایک سچ ہے کہ اس مقدس پیشہ سے وابستہ عامل صحافی جو ظالم و جا بر اور راشی اعلی افسران کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر جام شہادت نوش فر ما چکے ہیں جبکہ متعدد عامل صحافی آج کے اس پر آ شوب معاشرے میں صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر کم ظرف اعلی افسران جو لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں۔
وائس چانسلر صاحب گزشتہ چند ماہ قبل ایمنٹی انٹر نیشنل کی تازہ ترین رپورٹ جس کا عنوان تمھارے لیئے گولی چن لی گئی ہے کا مواد پاکستان بھر میں عامل صحافیوں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران در پیش خطر ات سے متعلق شائع ہو ئی اس رپورٹ میں میڈیا سے وابستہ عامل صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں ان پر ہو نے والے حملوں اور بااثر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا نے میں ریاستی اداروں کی ناکامی کا ذکر کیا گیا ہے ایمنٹی انٹر نیشنل کی مذید رپورٹ کے مطا بق ملک بھر میں میڈیا سے وابستہ عامل صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے عوض دھمکانے اور اُن کیلئے خطرے کا باعث بننے والوں میں کراچی کی لسانی متحدہ قومی موومنٹ عسکری مذہبی گروہ لشکر جھنگوی طالبان القاعدہ سے منسلک جماعتیں بلوچ علیحدگی پسند جماعتوں کے علاوہ متعدد بااثر افراد ہیں اس رپورٹ کے مطا بق جب سے ملک میں جمہوریت بحال ہوئی ہے درجنوں صحافی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں یاد رہے کہ اس سے قبل بھی کمیٹی ٹو پرو ٹیکٹ جر نلسٹ کی رپورٹ کے مطا بق پاکستان کو صحافیوں کیلئے خطر ناک ترین ملک قرار دے چکی ہے میڈیا سے وابستہ افراد کو آئے روز پریشانیوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اگر میڈیا کا نمائندہ کسی ایک مذہبی و لسانی جماعت کی خبر نشر کرتا ہے تو اُس کی مخا لف جماعت اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے گولی کا نشانہ بنا دیتی ہے جس کا واضح ثبوت کراچی کے ولی خا ن بابر کا کیس ہے اس کیس میں عوام اور میڈیا کے دبائو کے تحت حکومت نے اس کیس کی تفشیش تو کی لیکن اس کو انجام تک پہنچا نے میں حکو مت کے دانتوں تلے پسینہ آ گیا چونکہ اس کیس سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران گواہان اور پرا سیکوٹر مارے گے یا پھر انھیں اپنی جان بچا نے کیلئے روپوش ہونا پڑا حکومت کو بالآ خر اس دبائو کے تحت مذکورہ کیس کو کراچی سے باہر منتقل کر نا پڑا چونکہ اس کیس کے تانے بانے ایم کیو ایم کی اعلی قیادت سے ملتے تھے۔
عدالت سے سزا پا نے والے آ ٹھ ارکان کا تعلق مذکورہ جماعت سے تھا جو کہ مذکورہ جما عت کے معروف ٹارگٹ کلرز تھے اُن میں سے چھ ملزمان کو تو سزا ملی ہے تاہم دو ملزمان تاحال مفرور ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ جماعت کے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک کر نے کے جرم میں ایک صحافی خاتون کو اپنی جان بچا نے کیلئے عارضی طور پر ملک بدر ہو نا پڑا اس کے باوجود وائس چانسلر صاحب میڈیا سے وابستہ عامل صحافی ملک وقوم کی بقا کی خا طر اپنے فرائض و منصبی عبادت سمجھ کر ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہے گے چونکہ صحافت سے وابستہ یہ جان نثار افراد اپنے فرائض کو یوم نجات سمجھتے ہیں اس نفسا نفسی کے دور میں جس میں ہر دوسرا اعلی آ فیسر مفاد پر ست سیاست دان ذخیرہ اندوز تاجر چند روپوں کی خا طر ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوسنے والے ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز مذہبی فسادات کروانے والے علمائے دین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
انسانیت کو سہولیات کی سیج پر لٹا کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر نے کیلئے میڈیا سے وابستہ عامل صحافی پاکستان بھر کے اضلاع محلوں اور گلیوں میں بھوکے پیاسے رہ کر بھی حق کا علم اُٹھائے گھوم رہے ہیں آپ کی طرح اے سی روم میں نہیں بیٹھے در حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے باوجود ان عامل صحافیوں کی سر عام تذلیل کر نا آپ جیسے لا تعداد اعلی افسران فخر محسوس کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے آپ کے اس گھنائو نے اقدام کی وجہ سے آپ جیسوں کا ظرف اور سوچ کا اندازہ ہو تا ہے تو یہاں مجھے ایک بہت پرانا شعر یاد آ گیا۔
کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے اور کبھی خوشبو آ نہیں سکتی کاغذ کے پھولوں سے
تو یہاں مجھے اپنے بزرگوں کی ایک کہاوت یاد آ گئی آپ فر ماتے تھے کہ بیٹا کسی شخص کے خا ندان کا اندازہ کر نا ہو تو اُس کے کردار کو دیکھ لینا اگر اُس شخص کا کردار اعلی ہو تو سمجھ لینا کہ اُس کا تعلق کسی اعلی خاندان سے ہے اور اگر اُس شخص کا کردار غلط ہو تو سمجھ لینا کہ اُس کا تعلق کسی گھٹیا خاندان سے ہے تو آ ئندہ وائس چانسلر صاحب وٹ میڈیا مت کہنا چونکہ اس سے آپ کا کردار عیاں ہوتا ہے آ خر میں بس یہی کہوں گا۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو میں مر جائوں گا میں تو ایک دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا