تحریر : پروفیسر رفعت مظہر میاں نواز شریف صاحب کی بدولت آجکل الیکٹرانک میڈیا کی ”مَوجیں ہی مَوجیں” ہیں۔ پہلے اُنہوں نے خود ہی احتساب کا نعرہ لگایا اور اب کہتے ہیں کہ یہ احتساب نہیں ،استحصال ہو رہا ہے۔ کیا اُنہیں پہلے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں تو عشروں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک اور ”نظریۂ ضرورت” درکار ہو جس کی بِِنا پر احتساب کو استحصال میں ڈھال دیا گیا ہو۔ بہرحال نیوز چینلز کی تو چاندی ہو گئی اور وہ نیوزچینلز جوایسی خبروں کو بھی بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے تھے جنہیں دیکھ اور پڑھ کر ہنسی چھوٹ جاتی تھی اب اُن کے پاس بریکنگ نیوز ہی بریکنگ نیوز ہیں اور ناظرین ٹی وی ریموٹ ہاتھ میں پکڑے ایک چینل سے دوسرے چینل تک ”دُڑکی” لگاتے لگاتے تھک بلکہ ” ہَپھ” چکے ہیں ۔ناظرین کے چینل پہ چینل بدلنے کی واحد وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اُنہیں ”سچ ”کی تلاش ہوتی ہے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ جس سچ کے وہ متلاشی ہیں وہ ”چینلی دوکانوں” پر نہیں ملتا ۔اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ایک چینل اپنی پٹاری سے میاں نواز شریف کی ”نا اہلی” نکالے بیٹھا ہے تو دوسرا اُنہیں 2023ء تک بِلا شرکتِ غیرے وزیرِاعظم دیکھ رہا ہے۔
دَورانِ سماعت سپریم کورٹ میں بیٹھے جج صاحبان کی زبانوں سے نکلے حرف حرف کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا رہا ، اُن کے الفاظ کو اپنی مرضی کے پہناوے پہنائے جاتے رہے اور پُرلطف بات یہ کہ ہر چینل پر مختلف پہناوے ہی نظر آئے۔ اب سپریم کورٹ کی سماعت مکمل ہو چکی لیکن” افلاطونی تجزیہ نگار” اب بھی پاناما ہنگامہ پر سارا دِن تجزیے کرتے رہتے ہیں ۔تجزیے بھی ایسے کہ ایک تجزیہ نگار میاں نوازشریف کو صاف بچا لے جاتا ہے تو دوسرا اُنہیں چودہ سال کے لیے جیل بھیجنے پر بضد ہے ۔ آجکل نیوز چینلز پر شیخ رشید ،فواد چودھری اور بابرا عوان بہت مقبول ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو جلتی پر تیل ڈالنے کے ماہر ہیں۔ شیخ رشید ہر روز سپریم کورٹ کے باہر لگی قطاروں کو درہم برہم کرتے کورٹ روم پہنچ جاتے اور پھر دَورانِ سماعت” ٹھنڈے ٹھار ” کورٹ روم میںاُن کے خراٹے گونجتے رہتے۔ جونہی سماعت اپنے اختتام کو پہنچتی ،شیخ صاحب اپنی نیند پوری کرکے سپریم کورٹ کے باہر لگی ”میڈیا عدالت” پر بڑھکیں لگانے لگتے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے جعلی ڈاکٹر بابر اعوان ایسی ایسی موشگافیاں کرتے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ۔یہی حال فواد چودھری کا بھی ہے ۔اُنہیں صرف بڑھکیں لگانی آتی ہیں ۔ اگر کل کلاں وہ تحریکِ انصاف چھوڑ کر نوازلیگ میں شامل ہو گئے تو یہی باتیں وہ کپتان کے خلاف بھی کرتے نظر آئیں گے۔ یہ تینوں اصحاب وہی ہیں جنہوں نے ماضی میں کپتان کا ناطقہ بند کر رکھا تھا لیکن آجکل وہ کپتان کی وفاداری کا دَم بھرتے نظر آتے ہیں۔
کپتان صاحب کا مطالبہ پہلے سے بھی بڑھ گیا ۔وہ کہتے ہیں ” بات استعفے سے آگے نکل چکی۔ اب تو اڈیالہ جیل میں نوازشریف کا گھر بن رہا ہے”۔ ایسے میں پی این اے کی تحریک یاد آئی جب تحریکِ استقلال کے اصغر خاں ہر جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا کرتے تھے ۔یہ اعلان گیارہ سالہ مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا اور اصغر خاں قصّۂ پارینہ بن گئے۔ اُس وقت بھی قوم ایک ”خاں” کی بڑھکوں پر اعتبار کیے بیٹھی تھی اور آج بھی ایک ”خاں” گزشتہ چار سالوں سے تلوار سونت کر باہر نکلا ہوا ہے ۔ خاکم بدہن پتہ نہیں اب کون سا سانحہ رونما ہونے والا ہے۔
پاناما ہنگامہ شروع ہوتے ہی کپتان صاحب ”دھرنا ٹُو” کی تیاریوں میں جُت گئے اور میاں صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، فوراََ قوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو اِس معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کا کہہ دیا حالانکہ اِس کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں تھی ۔جہاں ساڑھے چار سو سے زائد لوگوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور وہ سینہ تانے پاکستان میں پھر رہے ہیں وہاں حسن اورحسین کی کمپنیوں سے کیا فرق پڑنے والا تھا لیکن میاں صاحب کو شاید ”مسٹر کلین” بننے کا شوق ہی بہت تھا اِسی لیے اُنہوں نے ” آ بَیل ، مجھے مار” کے مصداق خود ہی سپریم کورٹ کو آواز دے ڈالی اور اب اُن کی حالت یہ ہے کہ
اَب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اِس طرح تو ہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموں میں
ویسے میاں صاحب کی اِس لحاظ سے تو تحسین کی جانی چاہیے کہ اُنہوں نے آگے بڑھ کر اپنے سمیت پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کر دیا۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس کے مَن مین کھوٹ نہ ہو وگرنہ ہم نے اِنہی آنکھوں سے دیکھا کہ پانچ سال تک آصف زرداری ”استثنیٰ کی چھتری لیے گھومتے رہے اور آجکل وہی زرداری اور حواری میاں صاحب پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔
کپتان کے ”دھرنا ٹو” کووزیرِداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اپنی حکمت عملی سے فلاپ کر دیا ۔ کپتان بنی گالہ میں” پُش اَپس” لگاتے رہ گئے ،اُنہیں کسی نے باہر ہی نہیں نکلنے دیا اوروزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کو اندر نہیں آنے دیا ۔ پرویز خٹک اسلام آباد پر حملہ آور تو ضرور ہوئے لیکن چودھری صاحب کی حکمت عملی سے واپس خیبرپختونخوا ”دُڑکی” لگا گئے جبکہ کپتان تو کسی ایسی جگہ پر جانے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے جہاں ”پھَینٹی” کا خطرہ ہو۔ اِس لیے اُنہوں نے بنی گالہ سے باہر نکلنے کی ”حماقت” ہی نہیں کی۔ یہ سب کچھ وزیرِداخلہ کی بہترین انتظامی حکمت عملی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے ۔ شنید ہے کہ آجکل وہ میاں صاحب سے ”ناراض شراض” ہیں ۔اُن کی اِس ناراضی پر اپوزیشن بغلیں بجا رہی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ چودھری صاحب نوازلیگ سے اپنی پینتیس سالہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے اپوزیشن کا مُنہ بند کر دیں گے۔ چودھری نثار دبنگ آدمی ہے جو لگی لپٹی رکھے بغیر دِل کی بات زبان پر لے آتا ہے ۔ایسے شخص میں منافقت ہرگز نہیں ہوتی اور دوستوں کو بیچ منجدھار چھوڑنے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی پریس کانفرنس میں چودھری صاحب اپنے خیالات کا کھُل کر اظہار تو ضرور کریں گے لیکن ایسی جماعت کو داغِ مفارقت دینے کا تصور بھی نہیں کریں گے جس کے وہ بانیوں میں شامل ہیں۔
عین اُس وقت جب دھرنا ٹو ناکام ہو چکا تھا سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کا اعلان کر دیا اور وزیرِاعظم صاحب چونکہ پہلے ہی سپریم کورٹ کو سماعت کے لیے کہہ چکے تھے ، اِس لیے اُنہوں نے بھی اِِس کمیشن کو خوش آمدید کہا ۔ کپتان صاحب جو پہلے کمیشن کا نام سنتے ہی آگ بگولا ہو جاتے تھے ،اُنہوں نے بھی دھرنا ٹو کی ناکامی دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کا کمیشن قبول کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ 21 جولائی کو پاناما ہنگامہ اختتام پذیر ہو چکا ،فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ،اب دیکھتے ہیں کہ کب اور کیا فیصلہ سامنے آتا ہے ۔گویا فیصلہ آنے تک تو میڈیا کی چاندی ہی چاندی ہے لیکن اُس کے بعد بھی یہ سلسلہ تادیر چلتا رہے گااور میڈیا پر بیٹھے بزرجمہر نئی نئی تھوریاں پیش کرتے اور تاویلیں گھڑتے نظر آئیں گے جس سے ہر نیوز چینل کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کرتی رہے گی ۔ یہ تو بہرحال طے ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ فریقین میں سے کسی ایک کو ہرگز قبول نہیں ہو گا اور ملک ہنگاموں کی زَد میں رہے گا۔ اِس لیے فی الحال تو ملکی ترقی کا ادھورا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
حرفِ آخر یہ کہ بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ پاناما کی جنگ سپریم کورٹ کی بجائے میڈیا پر لڑی گئی اور تا حال لڑی جا رہی ہے اِس لیے ہمارا تو حکمرانوں کو یہی مشورہ ہو گا کہ وہ عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ پر وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے سب کچھ میڈیا کے سپرد کر دیں ، ”رام بھلی کرے گا”۔لیکن وکلا سے ذرا بچ بچا کے کیونکہ اُنہیں ”ایویں خوامخواہ ” ہڑتالوں کی عادت پڑ چکی ہے ۔ ویسے بھی ہماری وکلاء برادری اپنے کلائنٹس سے مقدمے کی ساری فیس تو پیشگی وصول کر لیتی ہے اِس لیے اُن کی بلا سے کوئی جیئے یا مرے۔ اگر کوئی کلائنٹ زیادہ ہی بے صبری کا مظاہرہ کرے تو کالے کوٹ والے اُسے ”گِدڑکُٹ” لگانے سے بھی باز نہیں آتے اِس لیے میڈیا کو سب کچھ سونپنے سے پہلے وکلاء سے مشورہ ضروری ہے۔