قیامت سے بھی بڑھ کر؟

Child Rape

Child Rape

خبر کیا ہے قیامت ہے۔ اسے قیامت سے بھی بڑھ کر کہا جا سکتا ہے۔ اتنی شرمناک۔ دردر ناک اور اذیت ناک کہ جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ کسی کو بتائے بغیر اس معاشرے سے کہیں دور چلا جائوں جہاں اتنا ظلم نہ ہو۔ ننکانہ صاحب میں سات ماہ کی بچی سے زیادتی۔ ملزم گرفتار۔ سوچتا ہوں ہم سب کس ماحول میں رہ اور جی رہے ہیں ایسا ظلم تو ان ممالک میں بھی روا نہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن وہاں پاکستان سے بہتر سماجی رویہ، بنیادی حقوق اور انصاف میسر ہے۔ اف خدایا! یہ کیسی درندگی کی انتہا ہے کہ معصوم فرشتے اور ننھی پریاں بھی محفوظ نہیں۔

اگر ہم سب غور کریں دل سے محسوس کریں تو احساس ہو گا پاکستان میں دن بہ دن جنسی درندگی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اس میں میڈیا کا کردار بڑا کلیدی ہے یہ سب مانتے اور جانتے ہیں کہ خصوصا الیکٹرانک میڈیا نے آگے نکلنے کی بھیڑ چال میں ہمارا قومی تشخص بھی دائو پر لگا دیا ہے قریباً ہر چینل پر بیشتر ایسے انڈین پروگرام بڑے دھوم دھرلے سے دکھائے جا رہے ہیں جو ایک فیملی کے تمام فرد ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے بدقسمتی سے تمام پاکستانی چینل بھی انڈیا کی نقالی میں بازی لیتے جارہے ہیں ان کھلے ڈھلے میوزیکل پروگراموں ،LoveStories پر مبنی ڈرامہ سیریل اور نیم عریاں بھارتی فلموں نے اچھے بھلے انسان کی جنسی بھوک میں اضافہ کر دیا ہے۔

ان عوامل کی وجہ سے والدین بھی اپنی اولاد کے ہاتھوں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں چونکہ ہمارے معاشرتی، معاشی اوردیگر گھریلو حالات کے باعث معاشرہ میں کھٹن (فرسٹیشن) زیادہ ہے اس لئے یہ ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے اوپر سے رہی سہی کثر غربت مہنگائی اور بیروزگاری نے گھمبیر کر کے رکھ دی ہے اسی بناء پر حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے قانون میں اتنے سقم ہیں کہ کسی جنسی جنونی کو سزا نہیں ملتی ابھی چند ماہ قبل ایک جنسی جنونی معصوم بچی کو درندگی کا نشانہ بنا کر لاہور کے ایک ہسپتال چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا ملزم کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ملی۔

Child Murder

Child Murder

کئی سال پہلے جاوید اقبال نامی سیریل کلر نے 100 بچے قتل کر کے ان کی لاشیں تیزاب میں ڈال کر ٹھکانے لگانے کا اعتراف کیا لیکن قانون اسے کوئی سزا نہ دے سکا اس کی مبینہ خودکشی سے جہاں بہت سے اس کے ساتھیوں نے سکھ کا سانس لیا وہاں یہ کیس بھی داخل دفتر کر دیا گیا۔ پاکستان میں کمسن اور چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے رحجان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے یہ رحجان ہماری حکومت، معاشرے اور ہم سب کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ایک اسلامی ریاست میں یہ سب خوفناک ہے اس ساری صورت حال میں ہماری سٹیٹ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ’ پوری نہیں کر رہی تعلیمی نصاب میں اخلاقی اقدار پر مبنی مضامین کو نظر انداز کرکے جب جنسی تعلیم کے مضامین پڑھائے جائیں گے تو معاشرہ میں ان واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

یہ بات طے ہے کہ جنسی واقعات کی روک تھام جنسی تعلیم سے نہیں حدود اللہ کے نفاذ سے ہو گی حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اخبارات ،TV چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ پر مانع حمل معلوماتی پروگرام، گرین سٹار، ساتھی، ہمدم کنڈوم، آل ویز طرز کے پیڈ کے اشتہار بند کر دے یہ ساری باتیں اور ضرورتیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں اس کی تشہیر ضروری نہیں جب ٹی وی اور اخبار نہیں تھے اس وقت بھی لوگ گذارا کرتے تھے تشہیر سے مسائل جنم لے رہے ہیں ٹی وی پر جب بچے بڑوں سے سوال کرتے ہیں کہ ساتھی کیا ہے ؟ اس وقت بڑوں کی حالت یقینا قابل ِ رحم ہوتی ہوگی۔

ہم مشرقی لوگ ہیں ہماری اخلاقی اقدار، روایات اور تہذیب و تمدن شتر بے مہار آ زادی کا ہر گز ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس کے ساتھ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر بھرپور توجہ دیں بالخصوص ٹین ایج کی ضرورتوں اور سرگرمیوں کا خیال رکھا جائے ان کے دوستوں اور ارد گرد کے ماحول کا بغوبی جائزہ لیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ والدین کم وسائل ہونے کے باوجود بھی بچوں کو تعلیم دلانے کیلئے بھرپور جدوجہد کریں اس سے کئی فائدے ہو سکتے ہیں بچے تعلیم کیلئے مکتب جائیں گے تو وہ گھر کے ماحول سے باہر نکل کر مزید کچھ سیکھنے کی جستجو کریں گے۔

تعلیم یافتہ لوگوں کو ترقی کے زیادہ چانسز ملتے ہیں، صحت مند سر گرمیاں بچوں کی صلاحیتوں میں نکھار لاتی ہیں جس سے اچھے شہری بننے میں معاونت ہوتی ہے بچوںکی سرگرمیاں واچ کرنے اور ان پر توجہ دینے سے کئی مسائل خود بخود حل ہو جا تے ہیں ۔ حکومت ، فانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے گذارش ہے کہ جنسی جرائم بالخصوص بچوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے تاکہ کسی بچے پر پھر کوئی قیامت نہ ٹوٹے ۔۔۔ کیونکہ جنسی تشدد کے بھینٹ چڑھنے والوں میں سے بیشترکی شخصیت مجروح ہوکر رہ جاتی ہے جس کا بدلہ وہ معاشرہ سے لیتے ہیں جس سے جرائم کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتاہے خدا کرے ہمارے پیارے وطن میں قیامت سے پہلے قیامت کے واقعات ختم ہو جائیں اس سے اکثر لوگ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی