اسلام پہ شب خون

Lahore

Lahore

تحریر: شاہ فیصل نعیم
یہ گوجرانوالہ سے لاہور واپسی کا واقعہ ہے ۔ گاڑی میں ایسا ہی رش ہے جیسا گاڑیاں کم اور سواریاں زیادہ ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ایسی صورتِ حال میں مسافرگاڑی والوں کو کوئی دعائیں تو دیتے نہیں اور جن الفاظ کا وہ استعمال کرتے ہیں اُن کا بیان یہاں مناسب نہیں۔ گاڑی مریدکے رکتی ہے کچھ لوگ اُترتے ہیں اور کچھ نئے داخل ہوتے ہیں نئے آنے والوں میں ایک شخص جو داخلی دراوزے کے پاس کھڑا ہے اُس نے شلوار قمیض پہ کالی واسکٹ پہن رکھی ہے، پائوں میں پشاوری چپل ہے، چہرے پہ داڑھی ، سر پہ ٹوپی جس پہ مفلر لپیٹ رکھا ہے، کندھے پہ سیاہ رنگ کا سکول بیگ لٹک رہا ہے ۔

ہاتھ میں موبائل ہے جس پر وہ کسی سے بات چیت کر رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اُس نے مسلمانوں جیسا لباس پہن رکھا ہے کیونکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کا لباس خطے کی مناسبت سے مختلف ہوتا ہے ہاں اگر میں یہ کہوں کہ اُس کا لباس ایسا تھا جیسا برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کا ہوتا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد اُس شخص کے گاڑی میں وارد ہونے کے بعد مسافروں کا ردِ عمل بتانا ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ گاڑی میں بہت زیادہ رش تھا مگر کوئی بھی مسافر اُس شخص کے پاس کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھا اُس کے اردگرد جگہ خالی تھی اورگاڑی میں موجود لوگ اُس سے ڈر رہے تھے اور جو ڈر نہیں رہے تھے وہ مشکوک نگاہوں سے اُسے دیکھ رہے تھے۔

islam

islam

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آج کل کے حالات میں اگرہم ایسے انسان کو دیکھتے ہیں تو ہم میں سے اکثر کا یہی ردِ عمل ہوتا ہے۔ اگر آپ باریک بینی سے اس کا جائزہ لیں تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے حلیے کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ یہ زہر اس قدرمہارت سے ہمارے اندرپھیلایا جارہا ہے جس کا اندازہ عام فہم لوگوں کو ابھی نہیں ہو رہا مگر ایک وقت آئے گا کہ اسلام مسلمانو ں کی زندگیوں سے مکمل طور پر خارج ہوجائے گاہم صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے۔ اس سب کے بعد ہمیں ایک خطاب سے نوازا جائے گا جسے دنیا لبرل مسلمان کے نام سے جانتی ہے ۔ آپ نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے اگر کوئی اسلام کی بات کرتا ہے تو ہمارے لیے یہ ٹاپک سب سے ناپسندیدہ کیوں ہوتا ہے؟یہ ایک محنت کا ثمر ہے جو مسلمانوں میں سے اسلام کو نکالنے کے لیے کی جارہی ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازش تیار ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اُس میں میڈیا کا جو کردار ہے اُسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی آپ دیکھ لیں کہیں بھی کوئی بھی دھماکا ہوتا ہے تو میڈیا بنا کسی تحقیق کے ایسے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیتا ہے جو حلیے سے مسلمان نظر آتے ہیں اکثر واقعات میں تحقیق کے بعد پتا چلتا ہے کہ حقیقی مجرم کوئی اور تھا۔ مگر میڈیا نے اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی ہوس میں اسلام کا خانہ خراب کر دیا۔
اسلام کے علمبرداروں کے لیے یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسلام کو اپنی زندگیوں سے نکالتے جارہے ہیں۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم