تحریر: طارق حسین بٹ چیرمین پیپلز ادبی فورم میرئے لئے تو یہ منظر بڑا چونکا دینے والا تھا کہ این ا ے ٢٤٦ کے الیکشن سے قبل پھانسی کے مجرم جس کی سزا میں چند گھنٹے باقی رہ گئے تھے نے میڈیا پر آ کر اپنا بیان ریکارڈ کروایا جسے ملک کے سبھی ٹیلی ویژن سٹیشنوں نے نشر کیا۔ صولت مرزا کے ہولناک انکشافات نے پورے ملک میں زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور ہر بندہ مبہوت تھا کہ سیاسی قائدین ا پنے اقتدار کی خاطر اس طرح کے رویوں کا اظہار بھی کر سکتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین پر دھشت گردی کے الزامات جس طرح ان کے اپنے کارکن نے لگائے اس نے ایم کو ایم کی سیاسی حیثیت کو سخت نقصان پہنچایا۔
کچھ سیاسی حلقے پہلے دن سے ہی ایم کیو ایم کو دھشت گرد تنظیم کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ان کی ایک نہ سنی گئی لیکن اب صولت مرزا کے منہ سے ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف انکشافات نے ان کے شبہات کو مزید تقویت بخش دی ۔یہ سچ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادا ت کی خاطر اپنے مخالفین پر ایسے الزامات بھی لگا دیتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کی ہرزہ سرائی کا واحد مقصد مخا لفین کی شہرت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے لیکن ا س بارگھر کا بھیدی بول اٹھا ۔جیت کی خاطر پروپیگنڈہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے اور جوکوئی اس میں جتنا طاق ہوگا اس کی فتح کی منزل اتنی ہی قریب ہو گی۔ صولت مرزا کے انکشافات کو بھی حلقہ این اے ٢٤٦ کے ساتھ جوڑا کر دیکھا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جائیگا۔اسٹیبلشمنت ایم کیو ایم کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتی تھی اور اس کیلئے صولت مرزا بہترین انتخاب تھا لیکن یہ مہرہ بھی پت گیا۔
کسی زمانے میں جماعت اسلامی کراچی کی سب سے فعال جماعت ہوا کرتی تھی لیکن ایم کیو ایم کی تشکیل کے جماعت اسلامی غیر اہم ہوگئی کیونکہ اب مہاجر کیمیونیٹی الطاف حسین کے پیچھے کھڑی تھی کیونکہ ا لطاف حسین نے ان کے ہاتھوں میں مہاجر ازم کا کارڈ تھما دیا تھااور اس کارڈ کا سامنا کرنا جماعت اسلامی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اکثر قائدین بھی بھارت سے ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے اور مہاجرین ہی ان کا حلقہِ انتخا ب تھا لیکن اس وقت انھیں مہاجر کہہ کر نہیں بلایا جاتا تھا ۔ایم کیو ایم کی تشکیل کے بعد یہ سارے مہاجر ووٹرز ایم کیو ایم کی جھولی میں چلے گئے جس سے جماعت اسلامی انتہائی کمزور ہو گئی ۔ پی پی پی تو کبھی بھی کراچی کی بڑی جماعت نہیں تھی۔اس کا زیادہ اثر اندرونِ سندھ اور لیاری تک تھا یا ملیر کے کچھ علاقے اس کی دسترس میں تھے جبکہ باقی کراچی پر جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان کا تسلط تھا۔شاہ احمد نورانی کراچی سے ہی منتخب ہو کر آیا کرتے تھے لیکن ایم کیو ایم نے ان کی سیاست پر بھی خاتمے کی مہر ثبت کر دی۔
JI
یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی،جمعیت العلمائے پاکستان اور ایم کیو ایم آپس میں حریفانہ کشمکش کی وجہ سے ایک دوسرے کی سیاسی مخالف بن کر سامنے آئیں اور ان کے درمیان پر تشدد واقعات ظہو پذیر ہوتے رہے۔ایم کیو ایم کے پاس چونکہ مہاجر کارڈ تھا اس لئے یہ دونوں مذہبی جماعتیں ایم کیو ایم کا سامنا کرنے سے معذور ہو گئیں ۔انھوں نے کوششیں تو بہت کیں لیکن ایم کیو ایم نے ان کامکو ٹھپ کر رکھ دیا اور وہ سیات میں عضوِ معطل بن کر رہ گئیں ۔،۔ صولت مرزا کسی زمانے میں ایم کیو ایم کے بڑے ہی سر گرم کار کن ہوا کرتے تھے لہذا پنے قائد کی خاطر وہ کسی کا بھی قسم کا قانونی یا غیر قانونی فعل سرانجام دینے میں راحت اور فخر محسوس کرتے ہوں گئے۔ہیرو ورشپ اسی چیز کا نام ہے کہ قائد کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دیا جائے اور پھر جوانی کے لاابالی دن ہوں تو پھر کس کافر کا قائد کی خاطر مرنے کو جی نہیں چاہتا۔
وہ دور ہوتا ہی ایسا ہے جس میں کسی کا خوف دامن گیر نہیںہوتا لہذا کسی کارکن سے قتل جیسے بھیانک افعال کا سرزد ہو جا نا بعید از قیاس نہیں ہونا چائیے ۔در اصل جوانی خود اپنا اظہار بھی چاہتی ہے اور اپنی قوت کو منوانا بھی چاہتی ہے لہذا انسان اپنی ذات کی اہمیت کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔ اگر معاملہ کسی متوسط طبقے کے فرد کا ہو جسے معاشرے نے نظر انداز کر دیا ہو تو معاشرے کے خلاف اس کی نفرت کو سمجھنا بھی چنداں دشوار نہیں ہونا چائیے۔نوجوان جو مشاہدے ،تجربے اور ودر اندیشی سے محروم ہوتے ہیں ان کی برین واشنگ بڑی آسانی سے ہو جاتی ہے۔برین واشنگ کی بنیاد در اصل نفرت پر رکھی جاتی ہے۔سیانوں کا قول ہے کہ نفرت اندھی ہوتی ہے جس کا وا حد مقصد مخا لف کو نیست و نابود کرنا ہوتا ہے چاہے اس میں خود اس کی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ محبت بھی تو اندھی ہوتی ہے لیکن کمال یہ ہے کہ محبت نفرت انگیز جذبوں کی طرح بگاڑ کو جنم نہیں دیتی لہذا نفرت اور محبت میں بنیادی فرق کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چائیے۔ نفرت ایک منفی جذبہ ہے جو تباہی اور بربادی کی علامت ہوتا ہے جب کے محبت مثبت جذبہ ہے جو تخلیقی اور سدھار کی علامت ہوتا ہے۔
نفرت ہمیشہ جنگ و جدل اور کشت و خون کا پیش خیمہ بنتی ہے جبکہ محبت انسانیت کی نجات ،فلاح اور اس کی بہبود کی داعی ہوتی ہے۔ دنیا کی وہ جنگیں جو نفرت پر برپا ہوئیں اس میں لاکھوں انسان اس کا ایندھن بنے لیکن وہ جنگیں جو انسانیت کی بقا،اس کی نجات، اس کی اصلاح اور اس کی سر بلندی کے لئے لڑی گئیں ان میں انسانی جذبوں کی جیت ہوئی اور کم سے کم انسانی خون بہا یا گیا ۔اگر کسی کو میری بات میں شک ہو تو وہ فتح مکہ کے منظر کو ایک دفعہ سامنے لے آئے اس پر ساری حقیقت واشگاف ہو جائیگی ۔ایک ایسی جنگ جس میں فتح کے بعد کسی سے انتقام نہیں لیا گیا اور نہ ہی سروں کے مینار بنائے گئے ۔ ایم کیو ایم نے ذاتی مقاصد کی خاطر لفظ مہاجر کا جس طرح سے استحصال کیا اور مہاجر کیمیونیٹی کو جس طرح دوسری کیمیونیٹی کے سامنے کھڑا کر دیا وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ایک زمانے تک تو مہاجر اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اور پاکستان کے نظریاتی محافظ تھے۔ان کی ہجرت نے ان کی قدرو منزلت میں مزید اضافہ کر دیا تھا لیکن دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے بعد ان کی شان و شوکت ماند پڑھنا شروع ہو گئی کیونکہ پنجاب کی نئی نسل زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کی باعث بیوو کریسی کے فرائض احسن طریقے سے انجام دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔فوج میں پنجاب کی غالب اکثریت کی وجہ سے بیوو کریسی میں بھی پنجابی عنصر نمایاں ہونے لگا جس سے مہاجروں کے اندر احساسِ محرومی نے جنم لینا شروع کر دیا۔
Pakistan
وہ تو پورے پاکستان کو یرغمال بنانے کی منصوبہ بندی کئے ہوئے تھے جسے پنجاب کی نئی نسل نے تعلیمی میدان میں اپنی کامیابیوں سے ناکام بنا کر رکھ دیا۔پاکستان کا کمال بھی تو یہی ہے کہ وہ خطے جہاں تعلیم برائے نام ہوا کرتی تھی انہی خطوں کی نوجوان نسل نے علم و ہنر میں اپنا نام روشن کیا اور ملکی معاملات میں اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کیا اور خود کو مہاجروں کے شانہ بشانہ انتظامی امور چلانے کیلئے پیش کیا جس سے مہاجر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گئے۔ ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کوٹہ سسٹم نے بھی ان کی من مانیوں کو لگام ڈالی۔ملازمتوں میں کمی اور بیوو کریسی میں عدمِ موجودگی نے ان کے اندر مہاجر ازم کو فروغ دیا اور جب الطاف حسین نے مہاجروں کے حقوق کی خاطر ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کیا تو پوری مہاجر کیمیونیٹی ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی جس کا اظہار ١٩٨٥ کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی فتح کی صورت میں سامنے آیا
جس کی پشین گوئی کسی نے نہیں کی تھی۔سیاسی جماعتیں تو انھیں کالج کے لونڈے لپاڑے کہہ کر نظر انداز کر رہی تھیں لیکن وہ ایک ایسی حقیت بن کر نمودار ہوئے جس میں بڑے بڑے جغادری سیاستدان خس و خا شاک کی طرح بہہ گہے۔ ایم کیو ایم کی تشکیل کا ایک مقصد مہاجر کیمیونیٹی کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوانا تھا۔پہلے یہ معاملہ علمی سطح کا تھا لیکن اب اسے سیاسی قوت سے حا صل کرنے کا ہدف بنا یا گیا اور اس میں انھیں خا طر خوا ہ کامیابی بھی ہوئی لیکن بیوو کریسی کا وہ جا ہ و جلا ل واپس نہ آسکا کیونکہ اب اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں پاک فوج بھی راستے میں حا ئل تھی جس کا مہاجر کیمیونیٹی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا اور یوں ایم کیو ایم ایک مخصوص علاقے میں ہی اپنی جگہ بنا سکی۔ حلقہ ٢٤٦ میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں پی ٹی آئی کی شکست اس بات کا واشگاف اعلان ہے کہ کچھ بھی ہو جائے الطاف حسین مہاجروں کے غیر متنازعہ قائد ہیں اور انھیں کوئی مات نہیں دے سکتا کیونکہ ان کی جیت مہا جروں کی جیت ہے۔،۔