آخر یہ میڈیا کر کیا رہا ہے

Media

Media

تحریر : ارم فاطمہ، لاہور
کسی بھی معاشرے کی معاشرتی زندگی ثقافت مذہب اخلاق اور وہاں رہنے والے افراد کی اجتماعی زندگی کی عکاسی جن ذرائع سے ہوتی ہے۔ ان میں ذرائع ابلاغ کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ اخبارات کتابیں سوشل ویب سائٹس سے قطع نظر اس کی عکاسی کاموثر ذریعہ میڈیا اور اس پر پیش کیے جانے والے ڈرامے اور اشتہارات بھی ہوتے ہیں۔

اگر ہم اور ملکوں کی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں جاننا چاہیں تو لازمی بات ہے ہم یا تو ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے یا ان کو پیش کرنے والے میڈیا پروگرامز دیکھیں گے۔ آپ یہ بات مانیں گے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کامیڈیا اس ملک کی معاشرت کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا اور اس کے سرکردہ افسران شاید یہ بھول چکے ہیں کہ ہم ایک اسلامی ملک پاکستان میں رہتے ہیں اور شاید یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم میڈیا پر ایسے پروگرامز اور اشتہارات پیش کریں جو ہماری اسلامی روایات کی عکاس ہوں اور عالمی افق میں ہماری اس درجہ پہچان کا سبب بنیں کہ ہم ایک ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔

آئیے ایک نظر ان پروگرامز پر ڈالتے ہیں جو ہمارا میڈیا ساری دنیا کو دکھا رہا ہے۔بات کرتے ہیں سب سے پہلے ڈراموں کی۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر ڈراموں کے موضوعات اور کہانیاں ایسی ہیں جن سے منفی رویے فروغ پارہے ہیں۔خاص طور پر ان کہانیوں میں جن میں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ صرف اپنے بارے میں سوچنا صحیح ہے اور اپنی خواہش کو حاصل کرنے کے لیے ہر وہ کام جائز ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہو یا نقصان ہو۔ یہ سوچ ایک ایسے معاشرے کی پرورش کرتی ہے جس میں ہر فرد خود غرضی کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے اس میں خلوص اور رواداری ختم ہوجاتی ہے اور جب ہم بات کرتے ہیں ان کے لباس اور طرز معاشرت پر تو ہماری نگاہیں شرم سے جھک جاتیں ہیں۔
آپ نے اکثر ڈراموں میں دیکھا ہوگا کہ ڈرامے کے کردار خاص طور پر خواتین بجائے اس کے کہ اس ملک کی معاشرت کا یہاں کی متوسط آبادی کی نمائندہ ہوں وہ فیشن اور بناوٹ کی منہ بولتی تصویر نظر آتیں ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ غیر اسلامی اور مغربی معاشرت کی دیکھا دیکھی لباس کا سب سے خوبصورت جز دوپٹہ اب ایک اضافی چیز بن چکا ہے اور خال خال نظر آتا ہے۔

زندگی کی سچی اور حقیقی تصویر کے بجائے مصنوعی چیزیں ،تصوراتی واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔ان سے معاشرے میں بسنے والے افراد کی سوچ رہن سہن زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ایک اور بات جو شدید مخالفت کا باعث بنتی ہے وہ یہ ہے کہ بنت حوا کو ایسے مضبوط منفی کرداروں میں پیش کیا جارہا ہے کہ اس کی شخصیت کا مجموعی تاثر بہت برا ہے۔ وہ جو ایک نسل کی پروردہ اور آنے والی نسل کی آبیاری کرنے والی ایک ماں بہن بیوی اور بیٹی ہے اس کو مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔

اگر بات کی جائے میڈیا پر چلنے والے اشتہارات کی تو ان کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی ماکیٹنگ اس انداز میں کی جائے کہ اس کے منفی اجزاءپر پردہ پڑا رہے اور بنت حوا کی مدد سے اسے اس طرح خوبصورت بنا کر پیش کیا جائے کہ اس کی مانگ میں اضافہ ہو۔ان کے لیے کسی قسم کے اخلاقی روایات کی پاسداری کرنا فرض نہیں ہے۔ بعض اوقات ایسے اشتہارات بھی ہوتے ہیں جنہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ جن کو فیملی کے ساتھ دیکھنا ممکن نہیں۔

آج کل کے میڈیا پروگرامز قومی امنگوں کی ترجمانی کرنے میں ناکام ہیں۔ وطن کی محبت اور اس کی ترقی و خوشاحالی کے لیے دل و جان لگانے کی لگن جو کبھی اس قوم کے ہر فرد کا خاصہ ہوتی تھی وہ آج کی نسل میں ناپید ہے۔ سبب یہی ہے ایسے پرجوش پروگرام جو ملک کی محبت اور اس کی عظمت کا احساس پیدا کر سکیںبالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اپ سبھی نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ قومی و ملی ترانوں، ڈراموں اور دستاویزی پروگراموں میںہر بات وطن کے حوالے سے، اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے جان تک لڑانے کی بات ہوتی تھی۔
اب قومی دن اس انداز میں منائے جاتے ہیں کہ غیر قوم کے گانوں پر رقص ہوتا ہے اور نوجوان نسل کا سڑکوں پہ ون ویلنگ کرنا کیا یہی ہماری اسلامی ثقافت رہی ہے۔ان سب کا ذمہ دار کون؟ میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے قطع نظر ان میں بگاڑ کا سبب ہے اور میڈیا کو بگاڑنے کی ذمہ داری کسی حد تک ہماری بھی ہے۔ وہ جو کچھ دکھاتا ہے ہم بنا اعتراض کے اسے قبول کیے جاتے ہیں۔ نہ احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔

ایک عام معاشرے کے فرد کی بہ نسبت اس کی زیادہ ذمہ داری ارباب اختیار اور میڈیا پالیسی مرتب کرنے والے سرکردہ افراد کی ہے کہ انہوں نے اس طرف سے مکمل آنکھیں بند کر رکھیں ہیں۔ جیسے کہ یہ سب ان کی اخلاقی ذمہ داری کے زمرے میں نہیں آتا کہ وہ میڈیا کو پابند کریں کہ ایسے پروگرامز اور ڈرامے اشتہارات میڈیا کی زینت نہ بنیں جو معاشرے پر منفی اثرات ڈالیں اور اس میں بگاڑ کا سبب بنیں۔کہتے ہیں جب گھر سنورتا ہے تو معاشرہ سنورتا ہے اور جب معاشرہ اور اس میں بسنے والے افراد کی سوچ اور عمل بہترین ہوگا تو ملک کی ایک خوبصورت شکل نکھر کر سامنے آئے گی مگر ان سب کی بنیاد تبھی خوبصورت رکھی جا سکتی ہے۔ جب ہمارے میڈیا پر پیش کیے جانے والے پروگرام اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایسی اخلاقی روایات کو فروغ دیں جن سے ہماریے مذہب اور معاشرت کی عکاسی ہو اور ملک سے محبت کا اظہار اور ملک کے لیے کچھ کر دکھانے کی لگن پیدا ہو تاکہ ہماری نسل اور آنے والی نسل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور بہتری کی جانب سفر کرے۔

تحریر : ارم فاطمہ، لاہور