طبی دہشت گردی !کون روکے گا؟

Medical

Medical

تحریر : راحیل گجر، پیرمحل
تاریخ کا بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود عوام کو موجودہ حکومت نے کیا ریلیف دیا موجودہ حکومت عوام کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو حالات جوں کے توں ہیں آج عوام میں حالیہ دہشت گردی عام ہے جس میں بم دھماکوں کے ساتھ انسانی جانوں کا ضائع عظیم نقصان ہے اسی طرح انسانی بیماریوں کی آڑ میں عطائیوں کاانسانی جانوں سے کھیلنا بھی عظیم ترطبی دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے آج جگہ جگہ گلی کوچوں میں لگائے گئے ایکسرے پلانٹ کیا عوام کو مضر صحت شعاعوں کے باعث کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا نہیں کر رہے؟ عوام کو مسیحائی کے نام پر یہ میڑک انڈر میٹرک نان کوالیفائیڈ عطائی حضرات تجربات کی مد میں اندھے کنوئیں میں دھکیل کر طبی دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

آج ان پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث ان عطائیوںنے خودساختہ ڈگریاں بڑے بڑے بورڈ پر لکھا کرنمایاں کررکھی ہے جسکو کوالیفائیڈ ماہرین پڑھ کر چکر ا جاتے ہے کہ ہم نے تویونہی بیس سال ضائع کردے ان ڈگریوں کا مخفف جو بورڈ پر آویزاں کیے ہوتے ہیں یہ عطائی حضرات ہی جان سکتے ہیں کیونکہ یہ کسی یونیورسٹی ادارہ کی طرف سے جاری شدہ نہیں ہوتی بلکہ عوام کوبیوقوف بنانے سمیت دکانداری کا ذریعہ ہوتی ہے اکثر اوقات ملک کے نامور ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں بطور قاصد کام کرنے والے اپنی مدت ملازمت کے بعد گھر بیٹھنے کی بجائے لیبارٹریاں ایکسرے پلانٹ لگا کر اپنے آپ کو تجربہ کار اس ادارے کا ظاہر کرکے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ان کوگرفت کرنے والے قانونی ادارے بھی اپنی قانونی پیچیدگیوں کے باعث ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہوتے ہیں کیونکہ ان عطائی حضرات نے اپنے تعلقات بڑے لوگوں سے قائم کیے ہوتے ہیں۔

اس قوم کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کو پسند کیا جاتاجو اپنے نام کے ساتھ امریکہ یورپ کے اداروں کی ڈگریاں ظاہر کرے حالانکہ ان ڈگریوں کا وجودتک نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف خط وکتابت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیںجبکہ ڈگریاں ظاہر کرنے والے میں سے کوئی فرد ان ممالک نہیں گیا ہوتا صرف بذریعہ خط وکتابت کے ذریعے ممبر شپ حاصل کرلیتے ہیں مثلا FTIDU، MAIUMممبرامریکن انسٹیوٹ آف الٹر اسائونڈ، MUSPممبر برٹش الٹر سائونڈ سوسائٹی ،آرایم ٹی رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر،پی ایم ڈی سی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل جوکہ ڈگری کی بجائے ادارہ کا نام ہے وغیرہ اور اس کے علاوہ ایم ڈی کولمبو یونیورسٹی جوکہ صر ف انٹرنیٹ پر بیٹھ کر سرٹیفکیٹ بجھوادیتے ہیں لکھا جاتا ہے۔

X-ray Laboratory

X-ray Laboratory

جبکہ ہمارے ملک میں میڈیکل کی کوالیفائیڈ ڈگریوں میں ایف سی پی ایس ، ایم سی پی ایس ۔ایف آر سی ایس ، ایم آر سی او جی ، ایم ایس اور منظور شدہ ڈگریوں کے ڈپلومہ جات شامل ہے جس میں ڈی سی ایچ ، ڈی ایل او ، ڈی ایم آرڈی ، ڈی او ایم ایس ، ڈی جی او ، ڈی اے ، وغیرہ وغیرہ شامل ہے ایکسرے لیبارٹری کے باعث حاملہ خواتین کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ وہاں رہائش پذیر بچوں کی افزائش کے پیش نظر ان کی ہڈیوں کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں اٹامک انرجی کمیشن اپنے وسیع تراختیارات کے باوجود ان ایکسرے لیبارٹریوں کو چیک کرنے سے معذور ہے نہ جانے ان کو وسائل کی کمی ہے یا پھر عدم توجہی کا عنصر شامل ہے حالانکہ پوری دنیا میں ایکس ریز شعاعوںکے استعمال کی صرف مخصوص حالات اور مخصوص جگہ پر ماہرین کی نگرانی میں اجازت دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟

ملک کے کونے کونے میں ہڈی جوڑ توڑ کے ماہر بڑے بڑے بورڈ لگاکر اپنی موٹی توندوں کے براجمان ہے آنے والے مریضوں کو نسل درنسل پہلوانی کے نام پر عوام کو معذور بنانے کا دھندہ اپنائے ہوئے ہیں انہیں کوئی اتھارٹی نے پوچھنا گوارانہ کیا کہ آپ اگر پہلوان ہے توآپ کا کام پہلوانی کرنا کشتی لڑنا ہے آپ کس قسم کے پہلوان ہے کہ ہڈی جوڑنے اور ہڈی توڑنے کا دھندہ ظاہر کرکے پہلوانی کو نئی راہ پر لگادیا دیکھا گیا ہے کہ اس پہلوان نما ماہر حالانکہ وہ پہلوان نہیں ہوتا کی تعلیمی جاہلیت کے باعث متاثرہ مریض درست ہونا تو درکنار ساری عمر معذور ہوکر رہ جاتا ہے خداکی مرضی سے اگر کوئی مریض درست ہو جائے توسالہا سال اس کی مثال دے کر دوسرے لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے۔

اس مریض سے درجنوں سینکڑوں مریض پھنسانے کا کام لیا جاتاہے اس قوم کی بدقسمتی دیکھئے بڑے بڑے موذی امراض میں دم کا سہارا لے کر علاج سے روگردانی کی جاتی ہے مریض جب اس نہج پر پہنچ جاتاہے تو پھر اس کو ڈاکٹر کے پاس لایاجاتا ہے جہاں پر علاج سے قبل ہی موت کی منہ میں چلاجاتا ہے اور یہ موت اس دم کرنے والے کی بجائے اس ماہرکے کھاتے میں چلی جاتی ہے جس کے پاس مرض کی شدت میں لے جاتاہے اس پر ستم یہ ہوتا ہے کہ پھر دم کرنے والا پراپیگنڈہ کرتاہے کہ دیکھو جب تک یہ دم کرواتا رہا ٹھیک رہا جب اس نے ڈاکٹر کو چیک کروایا اسی وقت موت کے منہ میں چلا گیا کیادانت نکالنے والے کان کی بیماریوں کو علاج کرنے والے فٹ پاتھوں پر اپنا کام دھندہ کررہے ہیں دانت نکالنے والے اپنے آلات باربار ہر آنے والے مریضوں کے منہ ڈال دیتے ہیں جوکہ ہیپاٹائٹس بی ،سی اورایڈز سمیت متعدد موذی امراض میں مبتلا کررہے ہیں جبکہ کان کا علاج کرانے والے بہرے پن کاباعث بن رہے ہیں اس ملک میں اس طبی دہشت گردی کے نام پر کھلی چھوٹ جاری رہے گی پنجاب حکومت کے وزیر اعلٰی میاں شہباز شریف نے کچھ اقدامات کیے ہیں مگر وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہ کرنے سے ان عطائیوں کوکھلی دہشت گردی کرنے میں آسانیاں مل رہی ہے کیا قوم اسی طرح طبی دہشت گردی کا شکار رہے گی یا پھر امید کی کچھ کرن اس عظیم ملک میں کے شہریوں کو رکھنی چاہیے تاکہ صحت مندفضا جوکہ ان کا حق ہے حاصل ہو سکے۔

Rahel Gujjar

Rahel Gujjar

تحریر : راحیل گجر، پیرمحل