اللہ تعالی نے انسان کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے اس کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں کہا جاتے ہے وہ کیڑے کو پتھر میں بھی روزی دیتا ہے۔روٹی تو وہ دیتا ہے لیکن انسان کو جب در بدر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے یہ روٹی کو چوپڑی بنانے کے لئے اپنی اس دھرتی کو چھوڑ خاک چھانتے پھرتا ہے۔بر صغیر و پاک و ہند کے لوگوں پر نظر دوڑائیں یہ مختلف رنگ و نسل کے لوگ ہیں کالے،گورے چپٹی ناکوں والے۔کچھ علاقے فتح کرنے نکلے اور کچھ اس روٹی کی تلاش میں جس کا ذکر کیا ہے۔
قبلہ والد صاحب نلہ ہریپور ہزارہ سے پچھلی صدی کے وسط میں گجرانوالہ آئے۔ہم پیدا تو نلہ میں ہوئے لیکن ہوش سنبھالی تو ایم سی پرائمری اسکول نمبر ٥ باغبانپورہ میں اک دونی دونی دو دونیاں چار وے کرتے تختیاں لڑاتے عطا محمد اسکول میں آ گئے۔اللہ کی مہربانی ہی تھی جس نے ہمیں ٹیکنیکل ایجوکیشن دلائی اور ہم ایک روز خوابوں کی گٹھڑی اٹھائے جدہ آ گئے۔اپنے عزیزوں کو تلاش کیا اور ایک مشکل زندگی کا آغاز کر دیا۔مدینہ منورہ کی پہلی نوکری ١٩٨٥ میں نصیب ہوئی۔اس کی وجہ ایک گورا بنا ۔بی ایم ڈبلیو کی ایجینسی میں کام کرتے ہوئے اس بندہ ء خدا سے واسطہ پڑا۔شکیل صاحب نے کہا افتخار صاحب مدینہ جائو گے کہا سر کیوں نہیں ۔شارع سلطانہ پر جہاں آج کل سوق دائود ہے وہاں جنرل موٹرز اور بی ایم کی ایجینسی تھی یہاں ہمیں مینجر لگا دیا۔چھوٹا سا سیٹ اپ تھا کوئی دس پندرہ لوگ تھے میں نوجوان تھا یہاں رانا موٹرز میں کچھ عرصہ کام کیا تھا لاہور مال روڈ کے اس سروس سینٹر میں کوئی سال ہی گزارا۔یہاں کے میاں وقیع نزیر بھائی (مرحوم) اور بہت سے دوستوں سے جڑی یادوں کا پھر کبھی ذکر ہو گا۔
می مدینہ منورہ میں اپنے مہمانوں کا تعارف کرانے سے پہلے اس ماحول کا بتانا پسند کروں گا جس میں مجھے رہنا پڑا۔شارع سلطانہ پر ہی محطہ زغیبی کے پیچھے بروسٹ البشیر کے ساتھ گلی میں ایک سات منزلہ عمارت کے چھٹے فلور پر ایک فلیٹ ہمارا تھا جہاں ہمیں رکھا گیا تھا ایک کمرے میں دو افراد رہتے تھے۔ایک پرانا سا بیڈ جس کو سہارا دینے کے لئے ایک دو بلاک موجود تھے ۔موٹا سا گدا ایک کمبل ایک بوسیدہ سی چادر حصے آئی۔مل جل کر ہنڈیا چلتی۔اسی کمپنی کے کچھ دوست ساتھ تھے۔ویسے تو اللہ کا کرم ہے مہمانوں کی آمد ورفت جہاں کہیں بھی ہو رہتی ہے مگر ایک دھن ہمیشہ سے رہی کہ مہمان آئیں ہم ان کی خدمت کریں بچپن میں ماں باپ نے یہی سکھایا۔محطہ زغیبی کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہی اس بلڈنگ میں جگہ ملی جہاں یہ رونقیں لگنا شروع ہوئیں ہمارے پہلے قابل ذکر مہمان معروف کرکٹر جاوید میاں داد تھے۔
انہی دنوں انہوں نے شارجہ کا یاد گار چھکا لگا کر انڈیا کو دھول چٹائی تھی جاوید میانداد اپنی مقبولیت کی بلندیوں پر تھے ہمارے ساتھ شمیم الحق بھی رہتے تھے جو پارٹس مینجر تھے شمیم فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے تھے ان کی وساطت سے جاوید میان داد ہمیں ملے۔انتہائی منکسر المزاج جاوید ہمارے لئے ایک نعمت سے کم نہ تھے ہم انہیں بار بار ملتے گلے لگاتے ایک بار کہنے لگے چودھری صاحب ایسا کیوں کرتے ہیں میں نے کہا بھائی یقین ہی نہیں آتا کہ آپ وہی مینداد ہیں جنہوں نے شارجہ میں بھارتی سورمائوں کو عبرت ناک شکست دی ہے۔جاوید بھائی چند دن ہمارے ساتھ رہے۔ان دنوں مسجد نمبوی میں کسی قسم کے مشروبات اور افطار کا سامان نہیں لے جا سکتے تھے۔
مدینہ میں رہنے والے افطار ہر صورت مسجد نبوی میں کرتے ہیں۔ایک روز جاوید میانداد نے کہا پکوڑوں کے بغیر افطاری کا لطف نہیں آتا اور پکوڑے کوئی لے جا نہیں سکتا تھا۔ہمیں ایک ترکیب سوجھی عبدالحکیم ایک ہیلپر ڈنٹر تھا اس کی شلوار میں جیب تھی اس طرح ہم نے میانداد کی خواہش پوری کی۔ایک صبح اٹھا تو جاوید میانداد کچن میں برتن دھو رہے تھے میں نے بڑھ کر منع کیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔یہ ان کی طبیعت کی ایک تصویر تھی آج کے کرکٹر اور ان کانکرہ دیکھیں تصویر کھنچوانے پر چڑ جاتے ہیں۔یہ ساری چیزیں مجھے یاد آئیں آج فون پر حویلیاں سے میاں شفقت کا فون تھا میرے کالم جہاں سے ملتے ہیں انہیں سینے سے لگا لیتے ہیں ایک انتہائی پیار کرنے والے ہیں زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اللہ اور اس کے رسولۖ کے حوالے سے جو تعلق بنا وہی مضبوط رہا۔میرے ایک بھتیجے نے ایبٹ آباد سے الیکشن لڑا یہ ٢٠٠٨ کی بات ہے پی ٹی آئی نے تو بائیکاٹ کیا تھا میں سردار شیر بہادر اور اس کی کمپین دیکھنے چلا گیا۔ایک با شرع نوجوان نے بڑے پیار سے مجھے چائے پینے کے لئے گھر آنے کی دعوت دی۔میں بھی گھر سے باہر تھا سوچا اس کی خواہش پوری کر دی جائے مین بازار کی ایک چھوٹی سی گلی میں وہ مجھے لے گئے چائے کی جگہ مجھے کھانا پیش کیا دیکھا ایک پردہ دار عورت ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ کھانے پکانے میں مصروف ہے وہ کبھی بچے کو سنبھالتی اور کبھی سالن روٹی دیکھتی میں خاموشی سے بازار گیا جو بلکل ساتھ ہی تھا ایک سادہ سا واکر خریدا اور اسے ننھے سے بچے کو اس میں بٹھا دیا۔اس جوڑے کی خوشیاں تو نہیں جانتا لیکن جو دعائیں دیں اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کوئی خواب تھا۔شفقت بعد میں عمرے کے لئے گئے انہوں نے بتایا کہ ایک ایجینٹ ہیں جو بندے حج رضا کار بھیجتا ہے۔ہم سیاسی لوگوں کو کوئی نہیں جانتا وہ کوئی پتھر ہو گا ورنہ لوگ پیسے کماتے ہیں ہم تعلقات۔چودھری یونس کو اللہ خوش رکھے انہوں نے نہ صرف ویزہ لگایا بلکہ کوئی پانچ سات ہزار سستا بھی کیا۔یہ لوگ وہاں جدہ بھی آئے میرے اللہ نے خدمت کا موقع دیا یہ ٢٠١٠ تھا میں جدہ میں ہی ایک عزیز کے ساتھ رہتا تھا۔اللہ نے ان کی خدمت کا موقع دیا مکہ مکرمہ میں ملاقاتیں ہوئیں ساحل سمندر پر لے گیا۔
دعائوں کی ایک گٹھڑی دے کر چلے گئے ان سے رابطہ ہو آج بتا رہے تھے کہ ننھی فاطمہ میرے گوجری کالم پر چھپی تصویر کو پیار دیتی ہے ۔سچ پوچھیں یہی پیار ہی تو زندگی کی کمائی ہے۔میں نے انہیں کبھی نیچا نہیں سمجھا لیکن یہ طبقاتی تقسیم ہے جو اونچ نیچ بنا رہی ہے۔میری زندگی میں بڑے لوگ آئے جن سے اظہار محبت کیا لیکن میرے اللہ نے جن سے پیار لوٹایا وہ یہی لوگ تھے۔کہنے لگے چودھری صاحب جدہ میں بھی کہا تھا کہ کالموں کی کتاب چھاپیں لوگ آپ کو پڑھتے ہیں کہا یار کون پڑھے گا۔دل میں سوچا ایک ماں تھی جو میری اخبارات میں چھپنے والی تصویر بھی سنبھالتی تھی یا میرا ایک درویش بھائی ہے جو تمام عمر پیار بانٹتا رہا سجاد چودھری۔بے جی میرے تقریری مقابلوں میں جیت گئے کپ سنبھال کر رکھتیں ان کو ہر سال قلعی کراتیں۔آج کی نسل کو قلعی کا کیا پتہ۔ایک ہاکر تھا جو پانڈے قلعی کرا لئو کی آواز دیا کرتا تھا وہ لوگ اب ختم ہو گئے اب پانڈے قلعی نہیں ہوتے اب ایسے برتن آ گئے ہیں جو جو آپ کو کینسر کرتے ہیں اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں ۔اب پیتل،ایلومنیم ،سٹین لیس سٹیل کی جگہ پلاسٹک ؤ گیا ہے۔شفقت نے بتایا سمھایا مشورہ دیا۔میں نے کہا چھوڑیں اب کون ان کتابوں کے چکر میں پڑے۔لاکھ دو لاکھ تو کہیں گیا نہیں بہتر ہے اسے مختلف ویب سائٹس پر لکھ کر پوسٹ کر دیا جائے۔ہماری ویب پر میرے چار سو کالم موجود ہیں جس کسی کو پڑھنا ہو پڑھ لے۔
بات اس شہر خنک کے مہمانوں کی ہو رہی تھی جس کی پذیرائی میں چند دن صرف کئے۔اب وہ لوگ کہاں گئے شمیم بھائی کہیں جدہ میں ہی تھے ۔متین پتہ نہیں کدھر ہیں۔مجھے اللہ نے ان مہمانوں کی پذیرائی کا شرف بخشا۔میں انہیں شہدائے احد پر لے گیا وہ جگہ دکھائیں جہاں سیدنا حمزہ اور ستر صحابہ شہید ہوئیے وہ پہاڑی بھی جہاں ھضرت خالد ابن ولید نے پیچھے سے آ کر اسلمی فوج پر کڑا وار کیا اور وہ جگہ بھی جہاں نبی پاکۖ کے دنداں شہید ہوئے۔احد کا پہاڑ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔آپ کا فرمان ہے احد جنت کا پہاڑ ہے۔سستے اور سادہ مدینہ منورہ کا نقشہ کھینچنا بڑا مشکل ہو رہا ہے۔جنت البقیع اب تو حرم کے ساتھ ہے اس وقت مسجد چھوٹی تھی ایک پر پیچ سی گلی جسے بہشتی گلی کہتے تھے اس میں سے ہو کر قبرستان میں جایا جاتا تھا۔راستے میں حجار کریمہ بیچنے والے لوگ تھے تسبیح کی دکانیں تھیں چھوٹی چھوٹی دکانیں ۔فیروزہ چار ریال،خوشبو کی شیشی ایک ریال سرمے دانی ایک ریال مسواکیں ایک ہاتھ سے چلنے والا کیمرہ کڑچ کڑچ کی آواز والا دس ریال جس میں ایک ریل سی ڈلتی تھی۔
میں اپنی دادی ماں کے لئے مہندی ،سرمہ اور چھوٹی چھوٹی چیزیں خردتا تھا اپنی بے جی بھائیوں کے لئے۔سچ پوچھیں ہاتھ شروع سے کھلا تھا ہمارے ساتھ کے لوگوں نے پلازے مارکیٹیں بنائیں ۔میں نے مدینے رہ کر دعائیں لیں۔میرا کوئی بھی مہمان کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔یہ باتیں کرنے کی نہیں لیکن یہ باتیں لکھنے کی ہیں ،یاد رکھنے کی ہیں۔مہمان اللہ کی رحمت ہوتا ہے رحمت جب گھر میں نازل ہو تو اسے اعزاز سمجھنا چاہئے۔میرے کالم کالم تھوڑے ہوتے ہیں یہ سچ جانئے میں اپنے قاری کے کان میں کھسر پھسر کرتا ہوں پرانے لوگ گھر سے نکل کر کھیتوں کے کنارے بیٹھ کر جو باتیں کیا کرتے تھے جو منڈلی لگاتے تھے جو پرئا بیٹھتی تھی جو چوپال لگتی تھی۔میں تو وہ چوپال لگاتا ہوں ۔میں ہمیشہ سے گھر سے کچھ اور سوچ کے نکلتا تھا اور کسی اور جانب نکل جاتا تھا۔اسکول ہو کالج یا اس دنیا کی یونیورسٹی۔ایک خوشبو ایک محبت کا ستعارہ بن کر تریسٹھ برس کا ہو گیا ہوں۔اس بار کے مہمان مدینہ جاوید میانداد تھے دیکھئے اگلی بار اس کو جاری بھی رکھتا ہوں یا نہیں۔میرے اس کالم کو دیکھئے لیکن درود شریف کے ساتھ۔گوگل پر نعت شریف دیکھئے خواب ہی میں رخ پر نور دکھاتے جاتے تیرگی دل کی میرے بجھاتے جاتے مدینہ میری آنکھ میں ہے میری کمزور آنکھوں کا نور مدینہ۔میرا جی چاہتا ہے میں اس کی گلیوں کے ایک ایک موڑ پر لکھوں بتائوں لوگوں کو کہ ستر کی دہائی کا مدینہ کیا تھا اب کیا ہے۔اللہ آل سعود کو اپنی رحمتوں میں رکھے۔
دوستو میں کٹر بریلوی ہوں لیکن مجھے علم ہے کہ اگر یہ لوگ وہاں سے ہل گئے تو ایک مصلی نہین ملے گا۔اے شہر مدینہ تجھ سے دور نہیں ہوں۔کھلی آنکھوں سے کہاں مکہ اور مدینہ نظر آتا ہے۔میں آنکھ بند کروں تو محطہ رحیلی سے وادی حدید ،وادی ستارہ، سے ہوتا ہوا ساسکو چھوتا ابیار علی پہنچ جاتا ہوں پھر آگے مسجد قباء کے بعد ایک موڑ جو بائیں مڑتا ہے وہ مجھے سیدھا میرے نبی کے پاس لے جاتا ہے۔آقا فاصلے کیا معنی رکھتے ہیں جدون چانواں اکھاں بند کراں تے مدینہ پہنچ جائوں ۔ماں جی میری دادی کہا کرتی تھیں اللہ جی میں کلی آں شہر مدینے چلی آں شہر مدینہ دور اے جانا وی ضرور اے۔سلام اس پر کے جس نے بے کسوں کی دستگیری کی اور کمال کہہ دیا شاعر نے۔جیتے رہے موقع ملا تو پھر تار جوڑیں گے پھر لکھیں گے اور دل کی باتیں کریں گے۔یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ جس نے سردیوں کی راتیں دیں اور اتنا کھلا گھر دیا کہ اب میرے رت جگے سے کوئی تنگ نہیں ہوتا ۔یہ بھی مدینے والے تیری دین ہے۔