نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔اللہ نے عطا کی حد کر دی ۔۔۔ورنہ کون دیتا ہے کسی کو اپنا محبوب ۔۔مدینة النبیۖ شہروں کا سرتاج محبوب کی جس شے سے بھی نسبت ہو وہ شے محبوب ہوجاتی ہے۔ شہر مدینہ کا نام زبان پر آتا ہے تو زبان پر صل علیٰ کے نغمے جاری ہو جاتے ہیں۔ دل بیقرار ہو جاتا ہے کہ یہی وہ قریہ محبوب ہے جسے حضور رحمت کائنات ۖ کی لازوال نسبت حاصل ہے۔ شہر عشق۔ ایک لطف۔عاشقوں کا اپنا انداز۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم۔ایک لازوال حیثیت.شہر عشق۔عشق کی انتہا۔مدینہ ہمیں کے گیا تھا مقدر۔ اس کی ہر چیز خوبصورت۔عاشقوں کا اپنا انداز دیکھا میں نے۔ کوئی ننگے پاؤں شہر داخل ہوتے ہیں۔عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و اہل بیت۔کوئی اونچا نہیں بولتا۔ کوئی آنکھوں میں موتی لیے ہوئے دعا کے ساتھ۔ایسے بھی آنکھوں میں ندامت کے موتی اور منہ پر مسکراہٹ۔انداز ایسا بیان ممکن نہیں۔اس شہر میں محبوب کے عشق میں عاشقوں کو فدا ہوتے دیکھا۔منزل ایک نظر جھکی ہوئی۔عشق منزل جو مجھ بیان ممکن نہیں۔صرف اتنا ہی کہ سکتا ہوں” کمال” کے وہ آنسو کا بہنا روکنا ممکن نہین اب کے قلم سے شہر مدینہ منورہ کا سفر لکھ رہا ہوں۔
ہاتھ سے لکھ رہا ہو مگر آنکھوں سے اشق منظر سوچ کر چل رہے ہیںیہی وہ شہر دل نواز ہے جس کے در و دیوار لمس مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہوئے۔ جو ایسا بے مثال ہے کہ اس کے گلی کوچوں میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خرام ناز فرمایا۔ جو کبھی یثرب تھا مگر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی برکت سے طیبہ، دارالشفاء اور دارالامن بنا۔ جس کا ذرہ ذرہ آفتاب نبوت کے نور سے روشن ہے۔ جس کا گوشہ گوشہ خوشبوئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مہک رہا ہے۔ یہاں گنبد خضریٰ ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی دھڑکن اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس کی محبت در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی محبت ہے۔ جس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مدینہ منورہ شہر محبت، قریہ کرم و عطا، خطہ بخشش اور وسیلہ مغفرت ہے۔
ایک مقام پر حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حرم پاک مکہ ہے اور میرا حرم مدینہ شریف ہے”۔ (طبرانی)دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”یہ (مدینہ طیبہ) خراب لوگوں کو (ایسے) باہر پھینکتا ہے جیسے آگ لوہے کے میل کو پھینک دیتی ہے”۔اللہ رب العزت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت و سکونت مکہ مکرمہ کی قسم کھائی اور جب مدینہ منورہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی تو یہ شہر دلنواز بھی خود بخود اللہ تعالیٰ کی قسم کے دائرہ رحمت میں آگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(البلد، 90: 1 ـ 2) ‘میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اے حبیب مکرم) اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شہر میں تشریف فرما ہیں”۔ (ترجمہ عرفان القرآن)مدینہ منورہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں.اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس کا بلند مقام ومرتبہ ہے۔ مدینہ منورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دار الہجرہ اور مسکن ومدفن ہے.مدینہ عربی لفظ ہے جس کا لفظی مطلب شہر ہے.مدینہ منورہ کو طابہ بھی کہا جاتا تھا۔ طابہ اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں،، لفظی معنی پاک کے ہے۔
ایک حدیث میں بھی ذکر ملتا ہے کہ رسولۖ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے اس شہر کا نام طابہ رکھا ہے.مدینة النبوی:مدینة النبوی کا مطلب نبیۖ کا شہر ہے۔ کافی عرصے تک یہ لفظ لوگ اس شہر کے لیے استعمال کرتے رہے.مدینہ المنورہ: لفظ منورہ کے معنی ”روشن ہوا،پُر نور ہوا یا نور سے سرشار” ہیں۔ رسول ۖ کی آمد کے بعد لوگوں نے اسے مدینہ منورہ (یعنی وہ شہر جو منور ہوا ہے) کا نام دیا۔شہر میں داخل ہونے کے بعد سامان وغیرہ اپنی رہائش گاہ میں رکھ کر غسل یا وضو کرکے مسجد نبوی کی طرف صاف ستھرا لباس پہن کر ادب و احترام کے ساتھ روانہ ہوں۔.دو رکعت تحیة المسجد پڑھ کر بڑے ادب واحترام کے ساتھ حجرہ? مبارکہ (جہاں حضور اکرم ۖ مدفون ہیں) کی طرف چلیں۔ جب آپ دوسری جالی کے سامنے پہونچ جائیں تو آپ کو تین سوراخ نظر آئیں گے، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور اکرم ۖ کی قبر اطہر آپ کے سامنے ہے، لہذا جالیوں کی طرف رخ کرکے ادب سے کھڑے ہوجائیں، نظریں نیچی رکھیں اور آپ ۖ کی عظمت وجلال کا لحاظ کرتے ہوئے سلام پڑھیں۔ اَلصَّلاةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُول َ اللّہِ اَلصَّلاةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّہِ.حجرہ مبارکہ کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑے ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ سلام پیش کرنے والوں کو بس حجرہ مبارکہ کے سامنے سے گزار دیا جاتا ہے۔
لہذا جب ایسی صورت ہو اور آپ لائن میں کھڑے ہوں تو انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ درود شریف پڑھتے رہیں۔ مسجد کے درمیان میں عمارت کا اہم ترین حصہ محمدۖ کا مزار واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں مانگی جانے والی ہر دعا مقبول ہوتی ہے۔ مدینہ منورہ کے لئے کسی طرح کا کوئی احرام نہیں باندھا جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں عورتوں کو مردوں کے حصہ میں اور مردوں کو عورتوں کے حصہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے باہر نکلنے کا وقت اور ملنے کی جگہ پہلے ہی متعین کرلیں۔فضول باتیں اور لڑائی جھگڑے سے بالکل بچیں۔ خرید وفروخت میں اپنا زیاد ہ وقت ضائع نہ کریں کیونکہ معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک شہر میں دوبارہ آنے کی سعادت زندگی میں کبھی ملے یا نہیں. مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی سے بہت تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے اس میں اہل بیت.(حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں)،ازواج مطہرات،بے شمار صحاب اکرام اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔مدینہ کے قیام کے زمانے میں یہاں بھی حاضری دیتے رہیں اور ان کے لئے اور اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت ورحمت اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہیں.فقی امام۔امام مالک۔ایک اعظیم عاشق رسول و اہل بیت۔جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھیامام مالک مدینہ شریف میں تھے۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علما میں سے ایک ہیں.اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔
مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام موطا امام مالک تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی۔آپ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔مدینہ منورہ کے پورے سفر کے دوران کثرت سے درود شریف پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرومدینہ منورہ میں قیام رہے اس کو بہت ہی غنیمت جانیں اور جہاں تک ہوسکے اپنے اوقات کو عبادت میں لگانے کی کوشش کریں۔
زیادہ وقت مسجد نبوی میں گزاریں کیونکہ معلوم نہیں کہ یہ موقع دوبارہ میسّر ہو یا نہ ہو۔ پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کریں کیونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار یا پچاس ہزار گنا زیادہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوکر کثرت سے سلام پڑھیں۔ ریاض الجنہ (جنت کا باغیچہ) میں جتنا موقع ملے نوافل پڑھتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں۔
رسول اکرم ۖ نے مسجد نبوی کو صرف عبادت کی جگہ قرار نہیں دیا بلکہ اس سے لوگوں کی سماجی، سیاسی، علمی اور زندگی کے دیگر امور سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی استفادہ کرتے تھے اسی لیے یہ مسجد مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ برسوں سے لاکھوں مسلمان مسجد نبوی اوراس کے احاطے میں واقع روضہ نبوی کی زیارت کے لیے نہایت عقیدت و احترام اور ذوق و شوق کے ساتھ مدینے جاتے ہیں. مدینہ منورہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں، اللہ اور اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے.اس کے رسول کے نزدیک اس کا بلند مقام ومرتبہ ہے۔ مدینہ منورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ۖ کا دار الہجرہ اور مسکن ومدفن ہے۔اسی پاک ومبارک سرزمین سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا۔ اس شہر کو طیبہ اور طابہ (یعنی پاکیزگی کا مرکز) بھی کہتے ہیں۔
اس میں اعمال کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ حضور اکرم ۖ کی زبان مبارک سے مدینہ منورہ کے چند فضائل پیش خدمت ہیں:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت سے بھی بڑھا دے۔ (صحیح بخاری)ضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: یا اللہ! مکہ کو تو نے جتنی برکت عطا فرمائی ہے مدینہ کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما۔ (صحیح بخاری)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے (مدینہ کے قیام کے دوران آنے والی) مشکلات ومصائب ر صبر کیا، قیامت کے روز میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا میں اس کی گواہی دوں گا۔ (صحیح مسلم)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی وبھوک پر اور وہاں کی تکلیف ومشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر کے پاس کھڑے ہوکر مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جوکسی اور جگہ درود پڑھتا ہے تو اس کی دنیا وآخرت کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور اس کا سفارشی ہوں گا۔ (بیہقی) ٥ کیلو میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے او رہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)یہ شہر اسلام کا دوسرا مقدس ترین شہر ہے. شہر کا پرانا نام یثرب تھا لیکن حضرت محمد ص ۖ کی ہجرت مبارکہ کے بعد اس کا نام مدینة النبی رکھ دیا گیا جو بعد ازاں مدینہ بن گیا۔ اس کی بنیاد اسلام پر ہےـ
شہر کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مسجد نبوی اور حضور نبی کریم ۖ کا روضہ مبارک ہے۔ جس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں فرزندان توحید یہاں پہنچتے ہیں۔ تاریخ اسلام کی پہلی مسجد مسجد قبائبھی مدینہ میں قائم ہے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ میں بھی صرف مسلمانوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے چاروں طرف فرشتے ہیں۔ اور دجال یہاں نہیں آسکے گا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں نے مکہ کے کفار کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کی۔ نبی آخر الزماں کی آمد پر اس کا نام مدینة النبی پڑ گیا اور یہ شہر اولین اسلامی ریاست کا دار الخلافہ بنا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر تاریخی میثاق مدینہ طے پایا اس کے علاوہ مواخات کے تحت تمام مسلمان مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنادیا گیا۔نبی اکرم ۖ کے شہر (مدینہ منورہ) سے واپسی پر یقیناًآپ کا دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوں گی مگر دل غمگین کو تسلی دیں کہ جسمانی دوری کے باوجود ہزاروں میل سے بھی ہمارا درود اللہ کے فرشتوں کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہونچا کرے گا۔
اس مبارک سفر سے واپسی پر اس بات کا عزم کریں کہ زندگی کے جتنے دن باقی ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے مولا کو راضی اور خوش رکھیں گے، نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہی اپنی زندگی کے باقی ایام گزاریں گے اور اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔اے شہر خاتم الانبیائ! تیری عظمتوں، رفعتوں اور بلندیوں کو سلام۔ تیرے مکینوں، باسیوں، مسکینوں، ضعیفوں، گداؤں اور فقیروں کی صداؤں کو سلام۔ تیرے در و دیوار، پاکیزہ ہواؤں، معطر فضاؤں، میدانوں، مرغزاروں اور پہاڑوں کو سلام۔عشق نبی میرا ایمان۔عشق نبی میری پہچان۔میرا دل اور میری جان ۔آ پ کی خاطر سب قربان۔اگر علظی ہوں وہ بیاں نہ ہو سکے۔ جو مدینہ منورہ کے شان کے مطابق ہو۔اللہ تعالی معافی دے۔عاشقوں سے معافی۔پڑھنے والوں۔اپنی دعاؤں میں مجھے اور تمام مسلمانوں یاد رکھے گا۔