مدینے میں عام معافی

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ دوستوں و دشمنوں سے حسن سلوک کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ نبوت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 13 سال مکہ میں رہے اور اس دوران مکہ میں بڑا پر آشوب دور تھا مکہ کے سردار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے تھے اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا تھا اور اذیتیں پہنچائی جاتی تھیںجس سے مجبور ہو کر وہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔ بعد میں مدینے پر بھی حملہ کیا گیا اور اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان دشمنوں سے، جنہوں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ان کو اذیتیں پہنچانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ، مکہ پر قبضہ کے بعد جب مکہ والے انتقامی کارروائی کے خوف سے لرز رہے تھے اور اس کی توقع بھی کر رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا کہ جائو ، تم سب لوگ آزاد ہو، اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ آج تمہاری کوئی پکڑ نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ ان پر رحم کرتا ہے۔

جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔(12.92)مدینہ بھی منافقوں اور دشمنوں سے پاک نہ تھا۔ یہاں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسوا کرنا چاہا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ان کا سرغنہ عبداللہ بن عبائی تھا اس نے بظاہر اسلام قبول کر رکھا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تئیں انتہائی معاندانہ جذبات رکھتا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کا مجموعہ بخاری شریف میں دو باب میں اس بات کا ذکر ہے کہ جہاں عبداللہ بن عبائی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بد گوئی کی تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نظر انداز کر دیا۔جنگ احد کے موقع پر جب قریش نے مدینہ پر ایک مسلح حملہ کا منصوبہ بنایا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مدینے کے تقریباً 1000 باشندوں نے حملہ آوروں کو پسپا کرنے کے لئے کوچ کیا۔ عبداللہ اور اس کے 300 ساتھی بھی کچھ دور چلے لیکن اچانک ہی واپس ہو گئے۔

Islam

Islam

یہ کھلی غداری تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں بھی عفو و درگذر سے کام لیا اور اس واقعہ کو نظر انداز کر دیا۔626میں بنو مستلیق سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوںنے خیمے لگا کر ایک مقام پر قیام کیا جہاں ایک مہاجر اور ایک مقامی شخص میں پانی کے مسئلہ پر تکرار ہو گئی۔ عبداللہ نے موقع غنیمت جانا اور چنگاری بھڑکانے کی کوشش کی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ بدر کر دینے کی دھمکی دی۔واپسی کے سفر میں اس سے بھی زیادہ گھنائونی حرکت کی گئی۔ اسے اسلام میں بد خواہی کے ساتھ بہتان تراشی کی داستان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا ذکر سورہ نور میں ہے۔

عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے بی بی عائشہ کے خلاف انتہائی بھدی تحریک چلا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت داغدار کرنے کی مذموم حرکت کی۔بد قسمتی سے اس مذموم تحریک میں عبداللہ کچھ مسلمانوں کو بھی شامل کرنے میں کامیاب ہو گیا اس میں حضرت عائشہ کا وہ چچا زاد بھائی مستاع بھی تھا جس کی بی بی عائشہ کے والد ابو بکرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفالت کیا کرتے تھے اور اس کی ہر طرح سے مالی مدد کیا کرتے تھے۔ لیکن جب معاملہ صاف ہو گیا اور عبداللہ کو منہ کی کھانی پڑی تو ابو بکر نے قسم کھائی کہ اب وہ مستا ع کی مدد نہیں کریں گے۔ لیکن قرآن نے اسے مسترد کر دیا اور فوراً ہی اس سلسلہ میں آیت نازل ہوئی۔ جس کے بعد ابو بکر نے توبہ و استغفار کیا اور مستاع کی امداد جاری رکھی۔لیکن عبداللہ سے کیسے نپٹا گیا یا اسے کیا سزا دی گئی؟ اسے کوئی سزا نہیں دی گئی۔بلکہ اس کی موت کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کفن کے لئے اپنی چادر دی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر نے انہیں ایسا کرنے سے یہ آیت سنا کر روکنے کی کوشش کی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر تم ان لوگوں کو معاف کرنے کے لئے 70بار بھی کہو گے تو اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ میں 70سے زیادہ بار کہوں گا۔قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرو اور واضح طور پر کہتا ہے۔

بے شک رسول اللہ حسن اخلاق کا ایک حسین نمونہ ہیں۔اور عفو و درگذر سے کام لینے ،معاف کر دینے، رحمدلی و سخاوت کا مظاہرہ کرنے اور ترس کھانے سے ہی ان کی سنت پر عمل کرنے کا اظہار ہو سکتا ہے اور یقیناًً اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق پاکستان کا غیر انسانی قانون اورعلماء کا غیر دانشمندانہ اور بے رحمانہ رویہ نبی پاک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمدلانہ تصور کے مطابق نہیں ہے۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
EMAIL:matabassum81@gmail.com,0300-4709102