تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسجدِ نبوی میں ہزاروں برقی قمقموں نے رنگ و نور کا سیلاب ہر طرف بکھیرا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا کہ ہزاروں چاند ستارے آسمان کی بلندیوں سے اُتر کر سرور کونین ۖکی آرام گاہ پر اظہار تشکر کے طور پر سجدہ ریز ہوں اِن برقی قمقموں کی دودھیا روشنی نے مسجد نبوی ۖ کے چپے چپے کو روشن کیا ہوا تھا اِن چاند ستاروں کی سحر انگیز روشنی نے مجھے مبہوت کر کے رکھ دیا تھا میری نظریں مسجد نبوی ۖ کے چپے چپے کا دیوانہ وار طواف کر رہی تھیں ایک حیرت انگیز سر شاری نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں واقعی کرہ ارض کے مقدس ترین گوشے میں موجود ہوں۔
میں کئی بار خو د کو چٹکی کا ٹ کر چیک کر رہا تھا اور ہر بار جب مجھے یقین ہوتا کہ میں گنا ہ گار سیا ہ کار واقعی حقیقت میں یہاں ہوں تو دل و دماغ با طن اور جسم کے انگ انگ سے خوشیوں مسرتوں کے پھوارے پھوٹ پڑے ‘ممتا کی سی آسودگی اور پھوار ہر طرف گر نے کا دلنشین احساس پہلے سے بھی گہرا ہو جا تا مدینہ اور مسجد نبوی ۖ کیسی جگہ ہے کہ یہاں آکر ہر پردیسی اِسی کا اسیر ہو کر رہ جا تا ہے پھر یہاں سے جانے کو دل ہی نہیں کر تا میں اپنی زندگی میں خدا کے کرم ِ عظیم سے بہت سی جگہوں پر جا چکا ہوں گورنر ہائوس ‘وزیر اعظم ہائوس’ صدر ہا ئوس ‘مغلیہ شاہی محلات ‘لندن بر منگھم پیلس ‘عرب امارات کے محلات ‘بھا رت میں مغلیہ محلات اور بر طانیہ کی تا ریخی عمارات لیکن جہاں بھی گیا ان جگہوں کو حیرت اور تنقیدی نظروں سے ہی دیکھا لیکن عقیدت سے نہیں یہاں آکر تو جسم کا رواں رواں سجدہ ریز تھا۔
نظریں اور گر دن بس جھکی جا رہی تھیں اُن جگہوں کو حیرت حسرت سے دیکھا محبت سے نہیں دیکھا دنیا بھر کے محلات اور عالی شان عمارتوں کی شان ضرور ہو گی تاریخی حیثیت بھی ضرور ہو گی لیکن اِن جگہوں کی شان اور مقام یہاں کی اُس جگہ سے پھر کروڑوں درجہ کم ہے جہاں پر دریم سرورکائنات ۖ نے اپنے نعلین مبارک اتارا کرتے تھے جہاں عاشقان رسول ۖ ننگے پائوں پھرتے ہیں دنیا بھر کے شاہی محلات کے نر م و گداز خوبصورت یا مہنگے قالینوں کی وہ شان کہاں جو اُس شکستہ چٹائی کے ایک تنکے کی ہے جس پر محبوب خدا ۖ بیٹھا کر تے تھے دنیا بھر کے شاہی محلات میں چمکتے دمکتے مہنگے فانوس میں وہ چمک اور روشنی کہاں جو خا ک مدینہ کے ذرات میں ہے دنیا بھر کے شاہی محلات اور جاگیر داروں کی شاہی حویلیوں کی شان اور خو بصورتی کی اپنی جگہ لیکن اِن میں وہ شان پا کیزگی اور طہارت کہاں جو سرور کو نین ۖ کے نعلین مبارک کے تلوئوں پر لگی ہو ئی خا ک میں تھی میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کیا شان تھی حضرت آمنہ کے لال کی جن کی آمد سے کا ئنات کا چپہ چپہ روشن ہو گیا۔
Madina Munawara
آپ کی کیا شان تھی جہاں بھی قدم رکھا نظر ڈالی اُسے یا دگار بنا دیا جس بے جان چیز کو چھو لیا اُسے زندہ اور امر کر دیا اسے زیا رت گاہ بنا دیا اور جس شے کو اپنی طرف نسبت دے اُسے لا زوال اعزازسے بخش دیا ۔ مدینہ جس کو لوگ یثرب کہتے تھے جس کے معنی تکلیف اور بیماری کے ہیں اور یہ سچ بھی تھا کیونکہ یہاں پر ہو نے والی بار شوں کی وجہ سے اِس وادی میں زہریلے ما دے پیدا ہو جا تے تھے اور اپنی زہریلے مادوں کی وجہ سے جب بھی کو ئی پردیسی اِس شہر میں آتا تو وہ بیما رہو جا تا اور جب شافع محشر محسن انسانیت ۖ نے 622ھ میں یہاں پر آئے تو آپ ۖ کے نعلین پاک کے صدقے میں یثرب شہر مدینہ منورہ بن گیا۔
آپ کے جسم اقدس کے فیض سے یہ شہر ایمان و شفا ء اور سکون آور بن گیا دنیا بھر کے صحرائوں سے آنے والے پر دیسی جب اِس شہر میں قدم رکھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے آگ برساتے صحرائوں پر ننگے پائوں آنے والے مسلمانوں کے زخمی پا ئوں تلے نخلستان آگیا ہو پائوں کے نیچے گلاب کی نرم و نازک پتیاں بچھ گئیں ہوں زخمی سسکتے پائوں پر مرہم لگا دیا گیا ہو مشک وغیرہ سے بھیگی درودوسلام کی صدائوں سے صدیوں کی پیاسی آنکھوں اور روحوں کو سکون مل گیا ہو اور پھر چشم تصور میں وہ عظیم منظر ابھر تا ہے جب محسن ِ انسانیت ۖ اِس شہر تشریف لا تے ہیں اہل مدینہ انصار کو آپ ۖ کا شدت سے انتظار تھا وہ روزانہ اپنے مسیحا کے انتظار میں شہر سے باہر آکر بیٹھ جا تے شام کے سائے پھیلتے تو وہ اداس دلوں کے ساتھ غمگین گھروں کو چلے جا تے اگلے دن پھر اپنی نظروں کی پیاس بجھا نے کے لیے نظریں بچھا کر بیٹھ جا تے اور پھر مدینہ کی تاریخ بدلنے والا دن آگیا۔
جب آقائے دو جہاں ۖ وادی قبا میں تشریف لا ئے ایک یہودی نے آپ ۖ کو آتے دیکھا تو با آواز پکار اُٹھا اے اہل مدینہ تمہارا نجا ت دہندہ آگیا اور پھر یہاں چند قیا م کے بعد آپ ۖ جب مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے تو سینکڑوں جانثاروں کے ہجوم میں آپ ۖ چل رہے تھے یہ انصار تھے جنہوں نے اہل مکہ مہاجروں کے لیے اپنے دل و دماغ اور جائیداد کے دروازے کھول دئیے تھے جنہوں نے آقا ۖ کے انتظار میں اپنی پلکیں راستوں پر بچھا رکھی تھیں انصار بہت مہمان نواز تھے اور محبوب خدا ۖ سے بہت زیادہ محبت کر تے تھے اور یہ روایت آج تک اور قیا مت تک قائم رہے گی آج اہل مدینہ جب کسی پر دیسی کو دیکھتے ہیں تو اسے محمد کہہ کر بلا تے ہیں اور اُس کے ساتھی کو صدیق کہتے ہیں یہ کر ہ ارض کا واحد اکلوتا شہر ہے جہاں پر ہر اجنبی مہمان کا نام محمد اور اُس کے ساتھی کا نام صدیق ہے اور اِسی شہر میں بوڑھے آسمان نے حیران کن منظر دیکھا جو اُس کی آنکھ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جم گیا۔
Muhammad PBUH
جب مال غنیمت با نٹنے کی با ری آئی تو آقائے دو جہاں ۖ نے نو مسلم مکیوں کو ما ل غنیمت سے زیادہ حصہ دیا اور چند نا دان انصاریوں نے اِس تقسیم کو نا پسند فرمایا تو محبوب خدا ۖ نے اُنہیں مخاطب کیا اور فرمایا کہ تم لو گو ں کو یہ پسند نہیں کہ لو گ اونٹ بکریاں لے جا ئیں اور تم محمد ۖ کو اپنے گھر لے آئو تو انصار شرمندگی سے پکا ر اُٹھے ہمیں صرف رسول خدا ۖ درکا ر ہیں پھر وہاں آنسوئوں کا سیلاب آگیا اور پھر قریش اونٹ بکریاں لے گئے اور انصاری محمد ۖ کو ہمیشہ کے لیے مل گئے یہ اعزاز قیامت تک کے لیے مدینہ سے کو ئی نہیں چھین سکتا اہل مدینہ کی خاک بھی آج مسلمانوں کی آنکھ کا سرمہ ہے اور آقا ۖ کے تلوئوں کا دھون آب حیات اور پھر اِسی مدینہ میں وہ سعید لمحہ آتا ہے جس کے انتظار میں وہ دیدہ دل فراش راہ کئے ہوئے تھے ہر طرف عید کا سماں تھا گلشن حیا ت میں بہار کی آمد تھی نسیم رحمت کے جھونکوں سے دل و دماغ معطر ہو رہے تھے در یتم کو دیکھ کر غلا م جھوم جھوم رہے تھے۔
آپ ۖ کی آمد سے فضا پر جوش نعروں سے گو نج رہی تھی گلیوں میں جا نثاروں کا سیلاب آیا ہوا تھا مدینہ کی چھتیں شوقِ دیدار میں بے خو د اور بے قابو ہو نے والوں سے بھر ی ہو ئی تھیں جوان بو ڑھے پر دہ دار خوا تین اور معصوم بچیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے ہوا ئیں فضائیں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی آمد پر جھوم جھوم رہی تھیں معصوم بچیاں دفیں بجا بجا کر اپنے محبوب مہمان کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور پھر ہا دی دو جہاں ۖ نے اِس شہر میں قیام کر کے اِس شہر کو کر ہ ارض پر سب سے زیادہ مقدس ترین بنا دیا میں مسجد نبویۖ کے مرمریں ستون سے ٹیک لگا کے سوچ رہا تھا آخر اس شہر میں کو ن سی کشش آسودگی اور ممتا جیسی الفت ہے کہ زمین کے گو شے گو شے سے لاکھوں لو گوں کو اپنی طرف دیوانہ وار کھینچتی ہے گردشِ لیل و نہار نے صدیاں ہڑپ کر لیں کئی سلطنتیں اجڑ گئیں شاہی ایوان ویران ہوگئے امراء کی حویلیاں خاک اڑانے لگیں امیروں کے بنگلے ویران ہو گئے سلا طین کے دربار کھنڈروں میں بدل گئے۔
عظیم حکمرانوں کی کچہریاں تا ریخ کے کوڑے دان کی نظر ہو گئیں سینکڑوں برس حکو مت کر نے والوں کی آخری نشانیاں خا ک بن کر اُڑ گئیں مگر مسجد نبوی ۖ ایسا گو شہ راحت ہر دور میں رہا کہ یہاں لو گ پیدل اونٹوں پر صحرائوں ریگستانوں سمندروں پہا ڑی راستوں کے نو کیلے پتھروں پر ننگے پائوں چل کر اِس کو چہ جا ناں میں آتے رہے یہ کیسا گو شہ راحت ہے کہ سسکتے بلکتے تڑپتے زندگی کی پریشانیوں الجھنوں بیماریوں میں پھنسے زخمی لو گ جیسے ہی اِس گو شہ راحت میں آتے ہیں ہر غم بھول جا تے ہیں ہر دکھ بھول جاتے ہیں یہ کیسا گو شہ راحت ہے جس کی پاپوشی کا شرف عرشِ بریں بھی حاصل کر نا چاہتا ہے اِس شہر کو مکہ معظم کے بعد کر ہ ارض کے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے یہ محض زمین کا ٹکڑا ہی نہیں یہ سجدہ گا ہ عشاق ہے یہی وہ عظیم شہر ہے جس کے ذرے ذرے میں عشق و مستی کے خزینے موجود ہیں۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org