تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں مدینہ پاک اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور میں اِسطرح گم تھا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم لندن شہر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے قریبی ساحل سندر پر پہنچ گئے تھے گاڑی رکنے اور میرے شفیق میزبان کے مخاطب کرنے پر میں واپس برطانیہ ساحل سمندر پر آگیا۔ لیکن میری روح کہیں مدینہ کی گلیوں میں ہی رہ گئی تھی۔ مجھے بار بار چند سال پہلے مدینہ پاک میں گزارے وہ کیف انگیز لمحات یاد آرہے تھے جو میں نے وہاں پر گزارے تھے مجھے آج بھی وہ رات اور صبح یاد ہے جب ہم مکہ مکرمہ سے رات کو اِسطرح چلے کہ نماز فجر مسجد نبوی میں ادا کریں گے۔
سارے راستے میں گاڑی کے باہر اندھیرے میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہا کہ چودہ صدیاں پہلے شہنشاہ مدینہ پتہ نہیں اِس رستے پر کہا ں رکتے ہونگے۔ کس پہاڑی پر درخت پر جھاڑی پر یا پتھر پر نظر مبارک پڑی ہو گی کس جگہ آپ کھڑے ہوئے ہونگے ۔رکے ہوں گے بیٹھے ہوں گے مسکرائے ہوں گے آسمان اور بادلوں نے کیا کیا نظارہ کیا ہوگا میں ساری رات انہی مشکبو خیالوں میں گم رہا کہ میرے میزبان نے نعرہ مارا کہ اب ہم مدینہ پاک میں داخل ہو رہے ہیں یہ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔مجھے ایک سحر انگیز کیفیت اور سر شاری نے جکڑ لیا میں باربار دائیں بائیں سر مئی پہاڑوں اور اکا دکا مکانات کو دیکھ رہا تھا۔میرا دل جوش عقیدت سے سینے کی قید سے باہر آنا چاہ رہا تھا ۔دل و دماغ پر ایک ہی کیفیت اور خیال باربار آرہا تھا کہ ایک ہی پل میں پلک جھپکنے سے بھی پہلے گُنبدِ خضرا کا ایمان افروز منظر میرے سامنے ہو اور میری صدیوں کی پیاس ایک لمحے میں بجھ جائے ۔مجھے بار بار حضرت انس کی حدیث پاک یاد آرہی تھی کہ جب کبھی بھی شہنشاہ ِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے واپس تشریف لاتے اور جب دور سے مدینہ پاک پر نظر پڑتی تو مدینہ پاک کی محبت میں اونٹنی کو تیز یتز چلاتے اور اگر کسی دوسری سواری پر ہوتے تو اُس ِ ایڑ لگاتے ۔میں یہ تو نہیں کر سکتا تھا لیکن پھر بھی دل چاہ رہا تھا کہ جیپ اڑ کر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جائے ۔ہم تار کول کی کشادہ سڑکوں پر فلک بوس عمارتوں کے درمیان تیزی سے مسجد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ ہمارے سامنے ایک جدید شہر برقی قمقموں سے سجی آسمان کو چھوتی عمارتوں کے ساتھ گزرتا جا رہا تھا لیکن میری نظریں صدیوں پرانے شہر کو ڈھونڈ رہیں تھیں ایک ایسی بستی جو کجھور کے پتوں اور تنوں پر مشتمل مختصر سی بستی جہاں ریت کے ٹیلے کھ جوروں کے باغات اور کنویں شتر بانوں کے خیمے آباد ہونگے جدید عمارتوں کی جگہ بکریاں چرتی ہونگی۔
اِدھر ہی کہیں حضرت ابو ایوب انصاری کا گھر مبارک ہوتا ہوگا جہاں پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی رکی ہوگی اور کیا شاندار اور روح پرور شام اور نظارہ ہو گا جہاں پربنوبخار کی بچیوں نے استقبالی نغمے گائے ہوں گے یہی کہیں وہ مبارک جگہ ہو گی جہاں پر آپ حضرت ابو بکر کے ساتھ اترے ہونگے وہ پہلا دن جس دن سے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس خوش قسمت بستی پر اُترے اور آج کا دن مدینہ کی شان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا کیونکہ یہ وہ نور کی بستی ہے جس کی نسبت سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور پوری کائنات پر اِس سے بڑی نسبت اور شان اور کوئی نہیں ہے ۔یہ وہ بستی ہے کہ جس کی شان سب سے جدا ہے ۔اِس کی خوشبو۔ لطافت اور رنگوں کی بہار سب سے جدا ہے ا،س شہر کی مسحور کن فضائیں آنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں ۔اِس شہر کی ہوائوں ، فضائوں میں ایسا خاص جادو ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے اور تہذیب سے آنے والا جب اِس شہر میں داخل ہو تا ہے تو خود پر قابو نہیں کر سکتا ۔اِس کیفیت کو وہی محسوس کر سکت اہے جو برسوں اِس کوچہ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا ہو جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں۔جس نے ساری زندگی اِس آس اور خواب میں گزاری ہو کہ مرنے سے پہلے صرف ایک بار اپنی صدیوں سے پیاسی آنکھوں کو سبز گنبد کے عکس جمیل سے منور کر لے ۔ ساری زندگی آگ برساتے صحرائوں میں ننگے پاؤں بھٹکنے والا انسان جیسے ہی اِس نور کی بستی میں قدم رکھتا ہے تو اُسے احساس ہوتا ہے جیسے وہ کسی نخلستان میں آگیا ہو جہاں چاروں طرف محبت ، سکون ، طمانیت اور ممتابھری آسودگی رچی بسی ہو ایک معطر پھوار ہمہ وقت دل و دماغ اور روح کے عمیق ترین حصوں کو شاداب کرتی جا رہی ہو۔صدیوں کے خوابوں سے بھری آنکھیں آسودگی سے نہال ہو جاتیں ہیں۔جیسے لمبی لا علاج بیماری کے بعد قرار آجائے جیسے اُجڑی ہوئی زندگی میں بہارآجائے جیسے شفقت بھرے ہاتھ نے رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو اِس بستی میں وہ مسیحا عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما ہیں جن کے روئے مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاکھوں انسان صدیوں سے ترس رہے تھے ایک ایسا مردِ کامل جس کی ایک جنبش چشم سے قیامت تک آنے والے اربوں انسانوں کی بیمار اور پیاسی روحوں کو سیرابی ملی یہاں پر نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان آسودہ خاک ہیں۔جن کے قدموں سے اٹھنے والے غبار کے چند ذرے بھی جس پتھر پر پڑے وہ سونے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا آج سعودی عرب میں تیل ، معدنیات اور سونے کے جو ذخائر ہیں وہ آپ کے قدموں کا فیض ہے۔
Khana Khaba
اِس بستی میں اڑنے والی خاک بھی کہکشاں سے زیادہ تابناک ہے۔ لاکھوں کروڑوں درود پاک سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ جن کا امتی ہونا ہم جیسے سیاہ کاروں کے لیے سرمایہ افتخار ہے جو ہم جیسے گناہ گاروں کاتوشہ آخرت ہے جو قیامت تک آنے والے انسانوں کا اثاثہ سعادت اور باعث ِ نجات ہے ۔ایک ایسا مسیحا اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس نے زمانوں کے انداز بدل ڈالے تہذیب انسانی کو شرفِ کمال بخشا ۔انسانیت کو ایسی روشن قدروں سے متعارف کرایا کہ اندھیرے روشنیوں میںبدل گئے ۔ازل سے ابد تک لا متناہی وسعتوں پر محیط ایسا ابر کرم برسا کہ صدیوں کے اندھیرے دور ہوگئے ۔ جہالت اور ظلم و جبر کے گڑھوں میں ماتھا رگڑتی زبوں حال قوموں کو زندگی کا قرینہ سکھایا ۔میں اپنے خیالوں میں گم تھا کہ میرے دوست نے کہا لو جی مسجد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئی ہے میں نے نظر اُٹھائی تو سامنے مسجد نبوی کے پر شکوہ مینا رنطر آرہے تھے اور جب میری نظر سبز گنبد پر پڑی تو دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو مسجد اور میناروں سے پیہم نور اور روشنی کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں ۔ چاروں طرف درود و سلام کی صدائیں گونج رہی تھیں۔
نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا نمازی تیزی سے مسجد نبوی کی طرف جا رہے تھے ۔ عقیدت مندوں کے ریلے رنگ ونور کے سیلاب کی طرح لہریں مارتے ہو مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے ایک ہجوم بے کراں تھا جو مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا ہم بھی تیزی سے وضو خانوں کی طرف بڑھے اور وضو کر کے تیزی سے مسجد کی طرف آئے تو مسجد اندر سے بھر چکی تھی لہذا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر ہی جہاں ہمیں جگہ ملی نماز کے لیے بیٹھ گئے کیونکہ اندر مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھر چکی تھی ۔پھر نماز کا وقت ہو گیا اور میں زندگی کی پہلی نماز فجر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پڑھنے لگا امام مسجد نبوی کی ایما ن افروز تلاوت شروع ہو ئی اور نماز فجر شروع ہوئی دل ابھی تک تیزی سے دھڑک رہا تھا اور یقین نہیں آرہا تھا کہ میں واقعی نور کی بستی مدینہ پاک کی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھ رہا ہوں۔
کرہ ارض کی وہ مقدس اور با برکت جگہ جہاں وقت کے ہر ولی کی سانسیں بھی رک جاتی تھیں جہاں پر جنید بغدادی اور بایزید بسطامی سے لے کر ہر دور کے ولی کی دھڑکنیں بے قابواور ہوش و حواس گم ہو جاتے تھے ۔قیامت تک آنے والے کروڑوں اربوں انسانوں کی یہ اولین خواہش کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی سعادت نصیب ہو آج یہ عظیم سعادت میرے مقدر کو چمکانے اور امر کرنے آنے والی تھی یہ میری دربار رسالتۖ میں پہلی حاضری تھی ۔ نماز کے بعد اب ارادہ تھا دربار ِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام اور حاضری میرا دل و دماغ عجیب و غریب کیفیت کا شکار تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں گناہ گار اس قابل ہوں کہ روضہ روسول حاضری دے سکوں۔ لوگوں نے پاکستان سے آتے ہوئے مجھے جانے کتنی دعائیں اور عرضیاں تھما رکھی تھیں اور میں بے شمار دعائوں اور عرضیوں کی پوٹلی سنبھالتا ہوا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھنے کا سوچ رہا تھا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org