فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس نے بحیرہ روم میں ترکی کی جانب سے توانائی کے ذخائر کا پتہ لگانے کے خلاف نئے اقدامات کے تحت علاقے میں تعینات اپنی فوج میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی کو فوری طور پر اپنی مہم روک دینی چاہیے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں کا کہنا ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کی جانب سے متنازعہ پانیوں میں توانائی دریافت کرنے سے ماحول کشیدگی کا شکار ہے اس لیے وہ علاقے میں تعینات اپنی فوج میں مزیداضافہ کرنے جا رہا ہے۔ بدھ 12 اگست کے روز فرانسیسی صدر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ”پرامن بات چیت کے لیے” ترکی کو متنازعہ علاقوں میں گیس کی دریافت کا عمل روک دینا چاہیے جس سے یونان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ”خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے تئیں اپنے عزم کے اظہار کے لیے فرانس عارضی طور پر اپنی فوج کو تعینات کریگا۔” یونانی وزیراعظم کائریاکوس مٹسوٹاکیس کے ساتھ بات چیت میں فرانسیسی صدر میکروں نے ترکی کی جانب سے گیس کی دریافت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”انقرہ کو یونان اور ترکی کے درمیان پر امن بات چیت کے لیے اس عمل کو روک دینا چاہیے۔”
مشرقی بحیرہ روم میں تیل اورگیس سے مالا مال بعض قدرتی ذخائر ہیں جس پر یونان، ترکی اور قبرص سبھی کا دعوی ہے۔ ترکی نے حال ہی میں اسی علاقے میں گیس کی دریافت کے لیے ایک سمندری جہاز بھیجا تھا جس سے یونان اور ترکی میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اسے قبرص گیس تنازع کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ملک قبرص نے جب اس علاقے میں پہلی بار گیس دریافت کرنے کا آغاز کیا تھا تو ترکی نے بھی اس پر عتراض کیا تھا اور تب یہ معاملہ یورپی یونین کے سامنے لایا گیا تھا۔گزشتہ ماہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اس حوالے سے ترکی کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” یوروپی یونین کے کسی بھی رکن ملک کے سمندری علاقوں کی خلاف ورزی یا پھر اس بارے میں دھمکی قابل قبول نہیں ہے۔” ترکی اور فرانس کے درمیان لیبیا کے مسئلے پر بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان حالیہ دنوں میں تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔
یونان ایتھنز اور مشرقی بحیرہ روم کے بعض دوسرے یونانی جزائر کو نام نہاد ‘خصوصی معاشی زون‘ کے طور پر دیکھتا اور ان کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی یونان نے مصر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں دونوں ممالک نے مشرقی بحیرہ روم میں اپنے اپنے معاشی علاقوں کی وضاحت کرتے ہوئے سرحدیں طے کی تھیں۔
ترکی حکومت نے اس معاہدے کو ‘سمندری ڈاکوؤں کا معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہیکہ یہ علاقے اس کی ملکیت ہیں اور ساتھ ہی اس نے گیس کی تلاش کا وہ سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، جسے اس نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور یورپی یونین کی ثالثی کے بعد ماضی میں ترک کر دیا تھا۔
ترکی کا ایک بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کے بعض علاقوں میں قدرتی گیس اور تیل کی دریافت میں لگا ہے جس پر یونان اور قبرص یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ ترکی ان کے سمندری پانیوں میں ایسا کر کے ان کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن انقرہ کا یونان پر یہ الزام ہے کہ وہ بحیرہ روم میں معدنیات تک اس کی معقول رسائی کو روکنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کا شمار خصوصی معاشی خطوں میں نہیں کیا جانا چاہیے۔