روم (اصل میڈیا ڈیسک) یونان میں حکام کا کہنا ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی نے تیل اور گیس اور توانائی کی تلاش میں مصروف اپنے بحری بیڑے میں تخفیف کردی ہے جس کی وجہ سے اس معاملے پر کشیدگی میں کمی آئی ہے۔
یونان میں حکومت کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کے جن متنازعہ علاقوں میں ترکی کا بحری بیڑا گیس کی تلاش کے سلسلے میں کھدائی کر رہا تھا، ترکی نے وہاں سے کچھ سمندری جہاز ہٹا نا شروع کر دیے ہیں۔ یونان کی حکومت کے ترجمان اسٹیلوس پیٹاس کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ان کا ملک، ”بین الاقوامی قوانین اور اچھے ہمسایہ تعلقات کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے” مزید گفت و شنید کے لیے بھی تیار ہے۔
ترکی کا ایک بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کے بعض علاقوں میں قدرتی گیس اور تیل کی دریافت میں لگا ہوا تھا جس پر یونان اور قبرص نے یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ ترکی ان کے سمندری پانیوں میں ایسا کر کے ان کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن انقرہ کا یونان پر یہ الزام ہے کہ وہ بحیرہ روم میں معدنیات تک اس کی معقول رسائی کو روکنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر کا شمار خصوصی معاشی خطوں میں نہیں کیا جانا چاہیے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ گیس کا پتہ لگانے کے لیے اس کا بحری جہاز دو اگست تک علاقے میں لنگر انداز رہیگا۔ اس دوران اسپین کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ اس سلسلے میں پیر 27 جولائی کو ترکی کے ساتھ جو بات چیت ہوئی ہے اس سے یورپی یونین اور اور انقرہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ اسپین کے وزیر خارجہ آرانشا گنزالز لایا نے ترکی کے اپنے ہم منصب سے بات چیت کے بعد کہا کہ ایک مہینے تک کھدائی کو روک دینا شاید ممکن ہے۔
انہوں نے کہا، ”مشرقی بحیرہ روم میں، خاص طور پر کھدائی کے تعلق سے ہم ایک اہم نقطہ پر پہنچے ہیں اور اس سلسلے میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود اوغلو کے ساتھ بات چیت کافی مفید رہی ہے۔” حالانکہ کھدائی روکنے کے منصوبے کے بارے میں انہوں نے کوئی بات نہیں کہی۔
چند روز قبل ہی یورپی یونین نے یونانی جزائر کے آس پاس بحیرہ روم میں قدرتی گیس کی دریافت کے لیے سروے کی کوششوں پر ترکی کو خبردار کیا تھا۔ یونان اور قبرص کا الزام ہے کہ ترکی کی جانب سے ان کے سمندری پانیوں میں قدرتی وسائل کو دریافت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس سے ان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اس حوالے سے ترکی کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” یوروپی یونین کے کسی بھی رکن ملک کے سمندری علاقوں کی خلاف ورزی یا پھر اس بارے میں دھمکی قابل قبول نہیں ہے۔”
گزشتہ برس یورپی یونین نے اس سلسلے میں ایک نئی حکمت عملی وضع کی تھی، جس میں قبرص کے سمندری پانیوں میں ترکی کی جانب سے غیر قانونی کھدائی کرنے پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس کے مطابق کوئی فرد یا کمپنی اگر مشرقی بحیرہ روم میں گیس کی تلاش کے لیے غیر قانونی ڈرلنگ کی مرتکب پائی گئی تو اس پر یونین پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔
لیکن ترکی نے یورپی یونین کے ان دعوؤں کو یکسر مستر کرتے ہوئے کہا کہ توانائی کے تعلق سے علاقے میں اس کی سرگرمیاں اس کی اپنی سمندری حدود میں ہیں اور قبرص یا پھر یونان کے سمندری علاقوں میں اس نے کوئی دراندازی نہیں کی ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جن علاقوں پر قبرص یا پھر یونان کا دعوی ہے وہ در اصل ترکی کے علاقے ہیں اور ان پانیوں میں ترکی کی سرگرمیاں اس کے اپنے حقوق کے دائرے میں ہیں۔