تحریر : روہیل اکبر نومبر 15 اور سال 1942 تھا جب آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس کے بعد کسی نے قائد اعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا طرز حکومت کیسا ہوگا جس پر کیا خوبصورت جواب دیا کہ پاکستان کا طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کو طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قران کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا الحمد وللہ قران مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجودہے اور قیامت تک موجود رہے گا قران مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جب پاکستان بن گیا تو اسکی پہلی سالگرہ پر اپنے پیغام میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ تعمیر کریں سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے مگر بدقسمتی سے ہم نے اپنا کلچر کچھ اس طرح سے بنا لیا ہے کہ قانون کو گھر کی لونڈی اور آئین کو ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ لیا ہے لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کررکھا ہے کہ اسکے چرچے پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے دنیا بھر میں اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں چوری اور لوٹ مار کا پیسہ سامنے نظر آرہا ہے مگر اسکے باوجود بھی کوئی اپنے آپ کو چور ماننے کو تیار نہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والی مثال ہمارے حکمرانوں پر ثابت ہورہی ہے آص علی زرداری جن پر کرپشن کے بے تحاشہ الزامات تھے 10سال جیل میں گذارے مگر وہ بھی بڑے فخر سے اپنے آپ کو پاکستان کا مخلص کہتے ہیں سرے محل اور دبئی سے لیکر پوری دنیا میں انکی لوٹ مار کی ہوئی جائیدادوں کی ایک لمبی فہرست ہے اسکے باوجود وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف امین اور صادق نہیں رہے اور وزارت اعظمی سے فارغ کردیے گئے پاناما کے حوالہ سے اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی کرپشن ثابت ہوتی جارہی ہے مگر وہ پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ہم نے قائد اعظم کے پاکستان کو بے تحاشاچور بازاری کے بعداب اپنا معیار کرپشن اور لوٹ مار بنا لیا ہے اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اقربا پروری اور میرٹ کی خلاف ورزی کی عادت ہے اور اپنے عہدے کے نا جائز استعمال کو بھی ہمارے ہاں بلکل گناہ سمجھا نہیں جاتا بلکہ اکثر اس بات کو مثبت طریقے سے ہی لیا جاتا ہے کہ فلاں بندہ اس سیٹ پر تھا نا تو اس نے اپنے رشتہ دار کا فلاں کام نکلوا دیا۔۔۔یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا بھی ہے۔۔
سیانے کہتے ہیں نا جیسی روح ویسے فرشتے ۔۔۔سیاستدان سیاست میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کا سوشل سٹیٹیس ہائی کر سکیں ۔۔اب شریف خاندان کو ہی دیکھ لیں ضیا الحق نواز شریف کو سیاست میں لے کر آیا اس سے پہلے شریف خاندان کا کوئی فرد سیاست میں نہیں تھا اور آج حال یہ ہے کہ جو بڑا عہدہ ،وزارت اٹھا لو اس میں شریفین کے عزیز و قارب کا راج ہے ۔۔ہمارے سیاستدان ساست میں آتے عوام کی خدمت کیلیے ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ خدمت کہیں بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اور سیاستدان آج زمین کل آسمان۔۔۔۔اسی کی دہائی میں ایک اتفاق فاونڈری رکھنے والا شریف خاندان آج تیس سے زائد فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اربوں کی آفشورو نان آفشور جائیدادوں کا مالک ہے۔
یہی حال انکے ان عزیزوں کا ہے جنکو یہ نوازتے ہیں۔۔سمدھی اسحاق ڈار کے بیٹے نے دبئی خرید رکھا ہے ۔۔چلیں یہ تو بڑے بڑے سیاستدان ہیں آپ یقین کریں پاکستان لنگر کی ایسی دیگ ہے جس سے کھانا ہر کوئی تبرک سمجھتا ہے کسی علاقے میں کوئی چھوٹا سا کونسلر منتخب ہو جائے علاقے کی چاہے ایک نالی پکی نہ ہو لیکن کونسلر صاحب کی معاشی حالت دن دگنی رات چگنی ترقی شروع کر دیتی ہے ۔۔گو کہ بلدیاتی نمائیندگان ہوں ،صوبائی حکومتیں یا وفاقی کرسی ملتے ہی بس ملکی خزانہ ہوتا ہے اور انکی جیبیں۔۔عوام کا معیار زندگی مسلسل تنزلی کی طرف گامزن رہتا ہے اور جو عوام کے نام پر لوٹ مار کی سیاست کررہا ہوتا ہے وہ موٹر سائیکل سے کرولا پر پھر لینڈ کروزر اور لینڈ کروزر سے مرسڈیزتک سفر چند سالوں میں طے کرلیتا ہے اور رہ گئی قائد کے اصولوں پر چلنے والی عوام کی بات وہ بیچاری برسوں کرائے کے مکان میں رہ کر اپنے کفن دفن کے لیے بھی کسی نہ کسی کے محتاج ہی رہ جاتے ہیں اور جو سرکاری ملازم ایمانداری کے چادر اوڑھے کام ،کام اور کام کے اصولوں پر کاربند رہتے ہیں وہ اپنے بچوں کی تعلیم تربیت اور شادیوں کے لیے بھی قرضوں کے محتاج ہوتے ہیں اور انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے باقی سب نے اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خوب اندھیر نگری مچارکھی ہے کرپشن اتنی عام اور معمولی سے بات ہوچکی ہے کہ ہر طرف لین دین کی باتیں عام ہیں جبکہ معض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اورپاکستان جیسے ملک میں جہاں اختیار کو استعمال کر کے دولت بنانے کو ہزگز گناہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ شریف ،سادہ ،مخلص اور محب وطن شخص کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔
آج چونکہ قائد اعظم کا دن ہے اور اسی حوالہ سے ہم سب کو تو بچپن سے یہی بتایا گیا ہے کہ قائداعظم جیسا رہنما اس ملک میں کوئی اور نہیں آیا۔۔۔ لیکن ابھی ابھی محترمہ مریم نواز المعروف کیلبری فونٹ والی کا ٹوئیٹر اکاونٹ دیکھنے سے میری عقل پر پڑا پردہ اتر گیا،،،میرے دماغ پر چھایا گہرا اندھیرا چھٹ گیا مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ مریم نواز کے ابا جی کی شکل میں قدرت نے ہمیں قائد اعظم ثانی سے نواز رکھا ہے لیکن ایک بات میں تب سے سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ قائداعظم تو ایک بڑے انسان تھے جنہوں نے لاکھ مشکلات کے باوجود ثابت قدمی دکھائی اور ایک الگ ملک حاصل کرلیا جبکہ قائد اعظم ثانی بننے والے نواز شریف نے ملک کو نہ صرف دونوں ہاتھوں سے لوٹابلکہ اپنے بچوں اور شتہ داروں کے ساتھ ملکر جی بھر کو لوٹا ایک طرف پاکستان بنانے والے تھے تو دوسری طرف اپنے آپ کو انکا ثانی کہلانے والے تھے جنہوں ملک کو تباہ برباد کیا آج ہمارے معصوم پاکستانیوں کا یہ حال ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے وہ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
ملک پر قرضوں کا بوجھ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہم نے اپنے تمام قومی ادارے گروی رکھ چھوڑے ہیں ہمارے ادارے مفلوج ہوچکے ہیں اور ان پر بیٹھے ہوئے افسران حکمرانوں کی نمک حلالی میں اس حد تک آگے جاچکے ہیں جائز اور ناجائز کی تمیز ختم ہوچکی ہے کمیشن خور مافیا نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اس وقت صرف پاکستان کی عدلیہ سے ہی کچھ امیدیں ہیں جو ملک کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ اپنے انداز میں کررہی ہے ورنہ تو پیسے کی حرص میں مبتلا لالچیوں نے ملک کو ادھیڑ کو رکھ دیا ہے ہم سے بعد میں پیدا ہونے والا چین آج دنیا پر راج کرنے کی تیاری کررہا ہے کیونکہ وہاں کرپشن کرنے والے کو سزائے موت دیدی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کرپشن کرنے والے کے ہاتھ میں ٹوکہ پکڑا دیا جاتا ہے کہ جسکی چاہے گردن آڑا دے جو اسکی راہ میں آئے اسے راہ سے ہٹا دے پاکستان غریب اور مزدور نے بنایا تھا سب سے زیادہ قربانیاں بھی انہی لوگوں کی تھیں جو اب تک قربانیاں دے رہے ہیں نہ جانے کب قائد کا پاکستان ان لٹیروں کے چنگل سے آزاد ہوگااور ہم قائد اعظم کے اصل پاکستان میں پرسکون زندگی گذار سکیں گے۔