تحریر : روہیل اکبر عید پر بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کی سکت نہ رکھنے پر ایک ماں نے پھر اپنے تین پھول جیسے ننھے معصوم بچوں کے ہمراہ خود کشی کی کوشش کی دو بچے اللہ کو پیارے ہوگئے حضرو کے مقام چھچھ میں پیش آنے والے اس وقعہ پر دل بہت دکھی ہے کہ کیسے ایک ماں کے اندر اتنا بڑا حوصلہ پیدا ہوا نہ جانے کب سے وہ مشکلات کو برداشت کرتی چلی آرہی تھی ایسے درجنوں واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں مگر نہ جانے کیوں ہمارے حکمران اپنے اپنے بچوں کے مستقبل بنانے میں مصرو ف ہیں عوام کے بچوں کی انہیں کوئی پراہ نہیں ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ بدترین وطن وہ ہے جس میں اہل وطن کا تحفظ نہ ہو جبکہ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اسکا ذمہ دار میں ہوں ایک اور جگہ حضرت عمر فاروق کی بیوی فرماتی ہیں کہ جب عمرؓ بستر پر سونے کیلیے لیٹتے تو نیند ہی اڑ جاتی تھی اور بیٹھ کر رونا شروع کردیتے تھے تو میں پوچھتی اے امیرالمومنین کیا ہوا تو وہ فرماتے کہ مجھے محمد ﷺ کی امت کی خلافت ملی ہے ان میں مسکین بھی ہیں ،ضعیف بھی ہیں ،یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی مجھ سے جب انکے بارے میں سوال کرینگے اور مجھ سے جو کوتاہی ہوئی تو میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کو کیا جواب دونگا سیدنا عمرؓ فرماتے تھے کہ اللہ کی قسم اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی مجھ سے پوچھیں گے کہ اے عمر تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ مسجد میں ممبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے تو حاضرین میں سے ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اے عمر ہم آپکا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک آپ یہ نہ بتاؤ کہ جو آپ نے کپڑے پہنے ہیں وہ کہاں سے لیے ہیں کیونکہ بیت المال سے ملنے والے کپڑے سے آپ کا سوٹ نہیں بن سکتا جس پر حضرت عمرؓ نے اپنا خطبہ روک دیا اور مجمع میں بیٹھے ہوئے اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ بیٹا بتاؤ کہ آپ کے باپ نے یہ کپڑا کہاں سے لیا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک ممبر پر نہیں چڑھوں گا جس پر آپکے بیٹے حضرت عبدللہ بن عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اور انکے پاس جو پہننے کا لباس تھا وہ بھی نہایت ہی خستہ ہوچکا تھا جس پر میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دیدیا۔
حضرت عمر فاروقؓ ایسے خلیفہ تھے جنہوں نے 22لاکھ 51ہزار30مربع میل رقبہ پر حکومت کی اور عدل وانصاف کی ایسی لازوال تاریخ رقم کی کہ درندے بھی کسی چرواہے کی بھیڑ پرحملہ نہیں کرتے تھے مگر آج ہمارے حکمران ہی درندے ہوچکے ہیں جنہوں نے اس قوم کے پیسے لوٹ لوٹ کربیرونی بینک بھر دیے اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تعلیم یافتہ افراد خاکروب کی نوکری کر رہے ہیں اور لٹیرے معزز بنے پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں ابھی ایسے ہی خیالات میں گم تھا کہ میری بہن طاہر ہ جالب کا ایک میسج ملا جسے پڑھ کر میرا ذہن پھر اس خود کشی والے واقعہ کی طرف چلا گیا اور بے اختیار زبان سے نکلا کہ یا اللہ خیر اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرما (آمین)۔طاہر لکھتی ہیں کہ انقلابی نظمیں لکھنے اور کہنے پر جب حبیب جالب کو پابند سلاسل کردیا گیا تو ایک دن میری والدہ ان سے ملنے جیل گئی اور جالب صاحب سے کہنے لگی کہ آپ تو جیل میں آگئے ہو اب گھر میں آٹا بھی ختم ہونے والا ہے اور بچوں کی فیس کا کیا بنے گا جس پر حبیب جالب نے بڑی بے چینی سے رات گذارتے ہوئے ایک نظم لکھی جسکا عنوان ملاقات ہے اپنے پڑھنے والوں کی نظر کرنا چاہتا ہوں۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں میرے دل کو جو تیری نگاہ میں شکایت میری جاں تھی گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی یکساں ہیں میری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی شاہوں سے جو کچھ ربط قائم نہ ہوا اپنا عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زبان تھی صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا مشہور گلستان میں بہت میری فغان تھی تو ایک حقیقت ہے میری جاں میری ہمدم جو تھی میری غزلوں میں وہ اک وہم وگماں تھی محسوس کیا میں نے تیرے غم سے غم دہر ورنہ میرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی۔
یہ وہی حبیب جالب ہیں جن کے اشعار جناب خادم اعلی صاحب اکثر اپنی تقریروں میں بڑے جذباتی انداز میں پڑھتے ہیں اور جب بھی کبھی نمبر ٹانکنے کی بات ہوتی ہے تو حکومتی وزرا ان کے گھر آکر بہت سے دعوے کرتے ہیں مجھے یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں اس وقت کی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان حبیب جالب کے گھر انکی بیوی کو چیک دینے آئی تھی تو انکی منسٹری نے تمام چینلز اور اخبار والوں کو کوریج کے لیے بلا رکھا تھا مگر سوائے وعدوں کے آج تک کوئی عملی کام نہیں ہوسکاایسے عظیم اور انقلابی شاعر جس نے عوام کو شعور دیا اور آج انکے بچے حکمرانوں کی بے شعوری کا شکار ہیں خدارا جذباتی تقریروں سے باہر نکلیں اور حقیقت کی دنیا میں آئیں غربت اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے والے منصوبے بھی بنائیں تاکہ بے سہارا اور مجبور مائیں اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں نہ کرسکیں زندگی کی خوشیاں صرف حکمرانوں انکے بچوں ،لوٹ مار کرنے والوں اور انکے ساتھیوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ غریب عوام تک بھی پہنچنی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب حکمران عوام سے ملاقات کریں گے۔