برلن (جیوڈیسک) دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوں یعنی “گروپ سیون” کا سالانہ اجلاس جرمنی میں شروع ہو گیا ہے۔ اوباما نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ہمراہ ایک مقامی دیہات کا دورہ کیا۔ مرکل نے امریکہ کو اپنا دوست اور شراکت دار قرار دیا ہے۔ اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی، اقتصادی امور اور دنیا کو درپیش دیگر بحرانوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
دونوں رہنما، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے ہمراہ طے شدہ اجلاس میں عالمی امور پر بات چیت کر رہے ہیں۔ صدر اوباما کے مطابق یہ رہنما “مشکل چینلجوں” پر تبادلہ خیال کریں گے۔ “جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ ہم اپنے مشترکہ مستقبل، عالمی اقتصادیات جو کہ ملازمتیں اور اس کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
روس پر تعزیرات برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ روس بھی اس گروپ کا رکن تھا لیکن گزشتہ سال یوکرین کے علاقے کرائمیا کو اپنا حصہ بنانے اور مشرقی یوکرین میں باغیوں کی حمایت کے بعد اسے الگ کر دیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف بحرانوں کے علاوہ بحرالکاہل میں متنازع جزائر والے علاقے میں چینی کے اقدامات پر بھی بات چیت ہو گی۔ اوباما نے کہا ہے کہ جی سیون گروپ کے رہنما یوکرائن میں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے پر بات چیت کریں۔ یہ بات انہوں نے جی 7 اجلاس میں شرکت کیلئے جرمنی آنے پر کہی۔
باراک اوباما نے کہا کہ تجارت‘ پرتشدد انتہا پسندی اور عالمی حدت بھی اس اجلاس میں زیربحث آئے گی۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کو آگے بڑھانے کیلئے متحدہ محاذ بنایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اقتصادی پابندیوں کا اثر ہم سب پر پڑ رہا ہے۔
سربراہی اجلاس سے متصل شہر گارمش پارٹن کرچن میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا ہے اور پولیس کے ساتھ تصادم کے مختلف واقعات پیش آئے ہیں۔ کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ اس فورم کو جرمن چانسلر ایبولا جیسے وبائی امراض سے نمٹنے کے منصوبوں پر غور خوض اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو فعال اور مزید اہل بنانے کیلئے بھی استعمال کریں گی۔
آج پیر کو اس اجلاس میں دولت اسلامیہ‘ بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیموں سے لاحق خطرات پر نائجیریا‘ تیونس اور عراق کے رہنماؤں سے بات چیت ہو گی۔ یہ ممالک جی 7 کے ’’آؤٹ ریچ‘‘ گروپ کا حصہ ہیں۔