موت کی وادی''تھر'' اور سائیں سرکار

Thar ,Qaim Ali Shah

Thar ,Qaim Ali Shah

تحریر:ممتاز اعوان

تھر پارکرمیں گزشتہ برس کی طرح امسال پھر قحط کی صورتحال ہے۔ 44 روز میں 56 بچے اور خواتین زندگی کی بازی ہار گئے لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک ہنگامی اقدامات نہیں کیے گئے صرف اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں اور ان میں بڑے بڑے دعوے ہو رہے ہیں،وفاقی و صوبائی حکومت فائلوں پر کارکردگی رپورٹس بنا رہی ہیں لیکن عملا تھر کے باشندوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔گزشتہ روز مٹھی میں سندھ کی سائیں سرکار نے اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کے موقع پر سول ہسپتال مٹھی میں عام آدمی کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور مریضوں کو باہر نکال کر ہسپتال بند کر دیا گیاتھا جسے انکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا عظیم الشان قافلہ جب بھوکوں پیاسوں کے دیس تھر میں پہنچا تو تھر کے باسی گاڑیاں گنتے رہ گئے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے جاہ و جلال نے شہنشاہوں کی یاد دلا دی۔ وزیراعلیٰ سندھ کے قافلے میں 92 گاڑیاں تھیں جن میں 30 سکیورٹی کی اور 40 لینڈ کروزر تھیں۔ گاڑیوں کا قافلہ دربار ہال میں رکا اور وزیراعلیٰ سندھ ائرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر بھوک اور پیاس سے بے حال عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے جبکہ دربار ہال سے باہر دروازے پر عوام پانی اور بھوک کیلئے غذا مانگتے رہے۔

اجلاس میں قائم علی شاہ نے دعویٰ کیا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ تھرپارکر میں غذائی کمی کے باعث ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تھرپارکر میں 5 سال سے زائد عمر کے بچے، خواتین اور مرد قدرتی طور پر بیماریوں جبکہ 5 سال سے کم اور خصوصاً پیدائشی بچے غیر تربیت یافتہ دائیوں (مڈوائف) کے ذریعے زچگی کروانے کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے ہیں۔تھرپارکر کے علاقہ مٹھی میں سندھ کابینہ کااجلاس تھرپارکرکے عوام سے مذاق ہے ،تھر کے عوام کو اجلاس نہیں اجناس کی ضرورت ہے۔ بھوک اور پیاس کے باعث تھرکے معصوم بچے بلک بلک کرجان دے رہے ہیں اورحکومت کونہ وہاں بھوک دکھائی دیتی ہے اورنہ ہی غربت بلکہ وہ اسے قدرتی آفت کانام دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں دی جانے والی منرل واٹر کی بوتلیں تاحال اسپتالوں میں گل سڑ رہی ہیں۔مبارک رند صحت مرکز کو دی جانے والی ایک ہزار سے زیادہ منرل واٹر کی بوتلیں مقامی ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے شہر کی دکانوں کو فروخت کر دی گئیں،منرل واٹر کی بوتلیں بچوں اور خواتین میں تقسیم کرنے کے بجائے اسپتالوں میں جمع کی جا رہی ہیں، چھا چھرو اور ڈاھلی میں 11 پی پی ایچ آئی مراکز مکمل طور ناکارہ ہو چکے ہیں۔تھر کی تحصیل چھا چھرو کیگاؤں چھاپر دین محمد کے 60 سالہ چمو کے نوجوان بیٹے نے 15 روز قبل کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی تھی۔

چمو میگھواڑ بتاتے ہیں کہ ان کا 21 سالہ بیٹا رائے مل مزدوری کے لیے بیراجی علاقے گیا تھا لیکن وہاں روزگار نہیں ملا اور واپس آگیا، اس کے بعد اس کے دماغ میں خلل آگیا۔پتہ نہیں کیا ہوا، اس نے کنویں میں چھلانگ لگا دی، میاں بیوی اور آٹھ بیٹوں پر مشتمل اس گھرانے کے پاس چھ بھیڑیں، دو بکریاں اور اونٹوں کی ایک جوڑی باقی ہے جن کو وہ درختوں سے پتے اتار کر کھلاتے ہیں۔تھر میں اس قدر بھوک کا راج ہے کہ جانور بھی بھوکوں مر رہے ہیں۔

اس واقعے کے بعد جو دوسرے بچے بیراجی علاقوں میں گئے تھے وہ بھی واپس آگئے ہیں۔صحرائے تھر میں رواں سال خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔غیر سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ صورتحال کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012 میں 24 افراد نے خودکشی کی تھی اور رواں سال کے دس ماہ میں 41 افراد اپنی جان لے چکے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں 90 فیصد ہندو ہیں، جن میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے جس وجہ سے قحط سالی ان کے لیے خوفناک نتائج لاتی ہے۔

ان نتائج سے بچنے کے لیے یہ لوگ مال مویشیوں سمیت بیراجی علاقوں کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں۔اگرو میگھواڑ ننگر پارکر سے بس کا پانچ گھنٹے سفر طے کر کے عمرکوٹ میں ماہر نفیساتی امراض کے پاس پہنچے تھے۔کرائے، ڈاکٹر کے فیس اور ادویات خریدنے کے لیے انھیں تین میں سے ایک گائے سات ہزار میں فروخت کرنا پڑی۔اگرو میگھواڑ کے چار بچے ہیں، ان میں سے صرف ایک میٹرک پاس ہے اور وہ بھی بیروزگار ہے۔ بات کرتے وقت ان کا دائیں بازو مسلسل کانپتا رہا۔وہ بتاتے ہیں کہ بارشوں کے بعد کچھ کام دھندا ہوتا تھا، لیکن ان دنوں فارغ بیٹھے ہیں، چند مویشی ہیں جن پر گزر بسر ہو رہی ہے۔قحط سالی کے نتیجے میں معاشی دباؤ نے لوگوں پر ذہنی دباؤ بڑھا دیا جس وجہ سے ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اس وجہ سے خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

Government of Sindh

Government of Sindh

قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کے پیسے نہیں ہیں، خوراک کی کمی بہت ہے اس سے ذہنی نشو و نما بھی متاثر ہوتی ہے۔تھر میں خوراک کی کمی کے باعث خواتین میں خون کی کمی عام ہے، جس کے نتیجے میں بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ہر دوسرے روز یہاں سے بچوں کی ہلاکت کی خبریں آ رہی ہیں لیکن حکومت سندھ کا موقف ہے کہ کسی بھی بچے کی ہلاکت بھوک کی وجہ سے نہیں ہوئی کیونکہ فی خاندان کو 50 کلوگرام گندم فراہم کی گئی ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے بھی تھر پارکر کے قحط زدہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ریلیف آپریشن شروع کیاگیا ہے، اس آپریشن کے تحت تھر کے مٹھی، پارنیلو، گہوڑانو، ویھ ہنگورجا، ویھ لنجھا، کھا روبجیر و دیگر علاقوں کے متاثرین میں راشن تقسیم کیا گیا ، مٹھی کے مرکزی اسپتال میں بچوں میں دودھ اور بسکٹ تقسیم کئے گئے، فلاح انسانیت فاونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے اپنے کارکنان کو تھر پار کر میں ریلیف آپریشن کو تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھر کی بھوک اور افلاس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے

ہم تھر پارکر کے لئے خصوصی پیکج تیار کر رہے ہیں، جس میں بچوں کے لئے خوراک ، ادویات اور دیگر سامان کو تھر کے دیہی علاقوں میں پہنچارہے ہیں، گزشتہ کچھ سال سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تھر پار کر کے لوگ انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں ، صحت کی سہولیات کے حوالے سے الدعوةمیڈیکل مشن کے تحت ڈاکٹروں کی ٹیمیں تھر کے دور افتادہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ لگا کر تھر کے عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کر رہی ہیں۔مختلف علاقوں میں ایف آئی ایف کے ساڑھے چھ سو کنوین مکمل ہو چکے ہیں جبکہ گیارہ سو کنوئوں پر کام جاری ہے۔حکومت سندھ نے اگرچہ تھرکوآفت زدہ علاقہ قرار دیا ہے لیکن متاثرین تک گندم اور دیگر اشیاء ضروریہ کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جا رہا۔ غذائی قلت کی وجہ سے اموات حکمرانوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ 2500 دیہات میں حکومتی دعوئوں کے برعکس گندم ابھی تک نہیںپہنچی۔ تھرپارکردرحقیقت موت کی وادی بن چکا ہے۔

ہرسال قحط کے باعث معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ حکومتی عدم توجہی اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے تھرپارکرکے اکثر متاثرہ علاقوں سے بھوک اور بدحالی کے باعث لوگ تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں۔حکومت سندھ تھرکے معاملے کوسنجیدگی سے لیتے ہوئے انسانی جانوں کے مزیدضیاع کوروکے۔گندم کی مقدارمیںاضافہ کرتے ہوئے دولاکھ سے زائدممکنہ متاثرہونے والے خاندانوں کو غذاکی منصفانہ تقسیم کی جائے۔

قحط زدگان کو مویشی ہلاکتوں پر زرتلافی دیاجائے تاکہ متاثرین کی زیادہ سے زیادہ امداد کی جاسکے۔ انسانی المیہ مسلسل جاری ہے انسانی جانیںضائع ہورہی ہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے اثاثوں سے محروم ہورہے ہیں جبکہ اس حوالے سے حکومتی اقدامات کافی نہیں۔ قحط سالی روکنے کے لئے بنائے گئے ادارے اور کمیٹیاں عملاً غیر فعال ہوچکی ہیں۔ ایک طرف گزشتہ سال قحط اور خشک سالی سے سینکڑوں بچے لقمہ اجل بن گئے بڑی تعداد میں مویشی ہلاک ہوئے جبکہ دوسری طرف متاثرین کوملنے والی امدادمیں حکومت کی اپنی رپوٹوں کے مطابق بڑی تعداد میں غبن کیا گیا۔ قحط کا مستقل حل تجویز کرنے کیلئے ماہرین، افسران اور ارکان اسمبلی پر مشتمل”تھر ڈویلپمنٹ کمیٹی”تشکیل دی گئی مگر صد افسوس کہ اس کی شفارشات کوبھی سردخانے میں پھینک دیا گیا۔ انسانی جانوں کے ساتھ کھیل کر ملنے والی امداد کے نام پر کرپشن کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472