پیر ہیبت خان قندہاری ایک ایسی عظیم ہستی ہے جو سرائے عالمگیر کے نزدیک واقع نہر کے کنارے سٹرک جو سرائے عالمگیر سے منڈی بہاؤالدین جاتی ہے ۔ اسی سٹرک کے کنارے پوران ایک قدیمی قصبہ ہے۔ اس کے قریب ایک درا سے دریائے جہلم عبور کر کے ضلع گجرات کی سرزمین پر قدم رکھا جاتا ہے ۔ مشہور ہے کہ پوران راجہ پورس کا پایہ تخت تھا ۔ راجہ پورس کے نام پر اس کا نام پوران رکھا گیا۔ یہ روایت بھی ہے کہ راجہ پورس کی بیوی ملکہ پورن کے نام سے یہ قصبہ آباد ہوا۔کچھ اہل عقیدت پوران کو پیران سے منسوب کرتے ہیں ان کے مطابق پوران کا اصل نام پیران ( اولیاء اللہ ) کی سرزمین ہے ۔ایک یہ بھی روایت ہے کہ موجودہ پوران قبل از مسیح یہاں سے چار میل دور جانب مشرق پبی رکھ سرکار میں آباد تھا جس کو ” بوڈی پوران ” کہتے ہیں۔ وہاں پر قدیم کھنڈرات کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
گاؤں سے مغرب کی جانب دریائے جہلم کنارے تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہے جس کو مقامی زبان میں ” ڈیرہ ” کہتے ہیں ۔ دریائے جہلم کے کنارے کئی قدیم بستیوں میں اللہ کے نیک بندوں ( ولی اللہ ) کے مزارات ہیں۔ان میں ایک بزرگ باباپیر ہیبت خان قندہاری ہے جن کے متعلق تاریخی معلومات حاصل کرنے کے لئے ” عقیدت مند ”نوجوان سماجی رفاحی شخصیت راجہ سیف الرحمٰن جلالیہ آف پوران سے خصوصی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
پیر ہینت خان قندہاری کا مزار پوران میں ہے ۔ تاریخی معلومات کے مطابق پیر ہیبت خان قندہاری بزرگ ولی اللہ ہوئے ہے ۔ شاہ بہلول لودھی کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ 1454 ء میں راجہ شاداب چند نو مسلم شاداب خان المعروف باوا شادی شہید مورث خاندان راجگان راجپوت چب والئے بھمبھر جو مقرب خدا اولیاء ہو گزرے ہیں کسی وجہ سے بھمبھر کے قریب ان میں جنگ ہوئی اور دونوں صاحبان تلواروں کے وار سے شہید ہوئے ۔ شاحان دہلی اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں موجودہ مزار شریف تعمیر ہوا ہے۔ ہندوؤں مسلم آپ کی کرامات کے شہدائی ہے۔
مطابق ریکارڈ مال بندوبست سال 1860 شرط واجب العرض 532 کنال ، 3 مرلے رقبہ بابا پیر ہیبت خان قندہاری کے نام پر وقف ہوا۔ اعوان برادری پوران کے آباؤ جداد کے نام بطور مجاور / متولی چلے آرہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے وقف شدہ رقبہ دربار بابا پیر ہیبت خان قندہاری پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے بحوالہ شجرہ پارچہ مراتبہ محکمہ مال 1868 ء اور سن 1928 ء بحوالہ کتاب بابا شادی شہید مصنف اقبال انقلابی صفحہ نمبر 145 ایک کتاب” پتھر بولتے ہیں ” میں لکھا ہے کہ ! پیر ہیبت خان قندہاری آج سے چھ سو سال قبل اپنے ملک سے بحالت فقیری موضع پوران میں وارد ہوئے آپ کی جائے قیام پر ہی سپردِ خاک کیا گیا۔ کہتے ہیں جب 1535 ء میں شیر شاہ سوری ہمایوں بادشاہ کے تعاقب میں پوران کے رقبہ میں داخل ہوا تو فوج سمیت بادشاہ کی بنائی میں فتور آگیا۔اور وہ آگئے بڑھنے سے مجبور ہوگیا اس پر مقامی لوگوں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ سب اس بزرگ بابا پیر ہیبت خان قندہاری کی قبر مبارک پر سلام پیش کریں اور قبر کی خدمت کرنے کا وعدہ کریں چنانچہ بادشاہ نے بزرگ کی قبر پر حاضری دیکر آپ کا پختہ مزار بنوانے کی پیش کش کی ۔ تو بادشاہ کو روحانی اشارہ ملا کہ وہ بابا پیر ہیبت خان قبندہاری کا مزار بنوادے۔ ان کی بنائی بحال ہو جائے گئی۔ جیسا ہی بادشاہ نے پختہ عہد کیا بنائی فوراً واپس لوٹا آئی۔ بادشاہ نے بنائی کی بحالی پر اپنا عہد پورا کرتے ہوئے بابا پیر ہیبت خان قندہاری کا پختہ مزار بنوا دیا۔
مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میں ایک چور ایک گائے اور اس کا تازہ بچھڑا چوری کر کے لیکر جا رہا تھا جب پوران کی حدود میں داخل ہوا تو پیچھے سے گائے کے مالک کو پتا چل گیا اور چور کا تعاقب شروع کر دیا اسی دوران چور گائے اور بچھڑے سمیت بابا پیر ہیبت خان قندہاری کی درگاہ کے قریب پہنچ گیا اور چور نے دیکھا کہ مالک اس کے قریب پہنچ چکا ہے۔ چور نے گائے اور بچھڑے کو وہی چھوڑ کر درگاہ پر حاضر ہو کر سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور بزرگ سے وعدہ کیا کہ آئندہ چوری نہیں کرونگا۔
چور درگاہ سے سلام کے بعد نیچے آکر دیکھا تو گائے گھبن اور بچھڑا بیل بن چکا تھا۔ مالک نے جب گائے گھبن اور بیل دیکھا تو وہ واپس لوٹ رہا تھا تو چور نے اس کوآواز دی کہ گائے اور بچھڑا تمھارا ہے ۔مالک نے کہا یہ میری گائے نہیں پھر چور نے سارا واقعہ سنایا تو مالک اور چور سمیت مقامی لوگوں نے اس کو ولی اللہ کی کرامت قرار دیا۔اسی لئے اس کو ” بابا پیر ہیبت خان قندہاری المعروف گاںگھبن وچھاہالی” ایک اور روایت مشہور ہے کہ بابا پیر ہیبت خان قندہاری مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں قندہار سے تشریف لائے تھے ۔ حسن ابدال میں حضرت بابا ولی قندہاری بھی آپ کے سلسلہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کے مزار کے قریب آپ کے بیٹے پیر عنایت بیگ قندہاری کا مزار ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں سن 1454 ء سے لیکر آج تک ہر سال ہاڑکی دوسری جمعرات کو ” میلہ و عرس ”ہوتا ہے۔ گردونواح اور دور درازکے عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں میلہ و عرس میں شرکت کر کے اپنا روحانی فیض حاصل کرتے ہیں ۔ اس میلہ و عرس کی ایک خاص بات ہر خاص و عام کے لئے میلہ و عرس کے دن لنگر کا وسیع انتظام ہوتا ہے۔ اور یہ اعزاز پوران کی اعوان برادی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ ساڑھے پانچ سوسال سے میلہ و عرس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا یہ بھی ایک کرامت ہے۔ اس سے قبل کہ میں آپ سے اجازت طلب کروں بزرگ بابا پیر ہیبت خان قندہاری کے خاندان کے متعلق بتانا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔میرا شاہ کے دو بیٹے ہوئے تھے ایک کا نام میر محمد جبکہ دوسرے بھائی کا نام میر بردے تھا میر محمد کے دو بیٹے سلطان ابو سعید اور میر ہیبت خان المعروف بابا پیر ہیبت خان قندہاری ۔ بابا پیر ہیبت خان قندہاری کا بیٹا عنائیت اللہ بیگ جو لا ولد تھا ان کا مزار بھی باباپیر ہیبت خان قندہاری کے ساتھ ہے۔ پیر ہیبت خان قندہاری کا دوسرا بھائی سلطان ابو سعید اور اس کا بیٹا شیخ مرزااور اس کا بیٹا شہنشاہ ہندوستان ظہیر الدین بابر تھا جبکہ میر بردے کی اولاد سے میر غازی تھا اور اس کی اولاد موضع رسول میں آباد ہے ( بحوالہ بابا شادی شہید صفحہ نمبر 146 و مراتبہ شجرہ مرزا غلام احمد رسول )