وزیرآباد (نامہ نگار) 82 سالہ محبوب احمد خان لودھی وزیرآباد کے قریبی گائوں ویروکی میں رہتے ہیں 1947ء میں انڈیا کے شہر سمانہ ریاست پٹیالہ سے اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے آئے دور لڑکپن تھا 14 اگست کے بعد ہی تقسیم کا مرحلہ شروع ہوگیا تو خاندان کے بیسیوں لوگ واہگہ بارڈر کے رستے بیل گاڑیوں پر پاکستانی حدود میں داخل ہوئے چند روز تک قصور شہر میں ٹھہرے اوربعدازاں سرگودھا شہر میں شفٹ ہوگئے جہاں سے وزیرآباد میں زرعی رقبہ اور مکانات کی الاٹمنٹ ہونے پر قریبی علاقوں نظام آباد، ویروکی اور خسڑے میں پورا خاندان آبسا۔ہندوستان میں جہاں ہم رہتے تھے۔
ہندووں اور مسلمانوں میں آپس میں محبت تھی ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بھی تھا، مگر مجموعی طور پر حالات خراب ہوچکے تھے، دوران ہجرت ہر طرف موت کا خوف تھا مختلف خبریں آتیں کہ قافلوں پر حملہ کرکے سکھوں اور ہندووں نے مسلمانوں کا سامان لوٹ لیا قتل کردیا ، عزتیں لوٹ لیں، پاکستان داخل ہوئے تو بڑے بزرگ سرزمین پاک پر سجدہ میں گر پڑے۔ ا نہوں نے بتایا کہ آزادی کی تحریک میں اپنے سے بڑے جوانوں کیساتھ بھرپور شرکت کرتے اورہم لوگ یہ نعرے لگاتے تھے۔ لے کے رہیں گے پاکستان،بن کے رہے گا پاکستان۔ دینا پڑے گا پاکستان۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ا تنا جوش و جذبہ دنیا کی کسی بھی تحریک آزادی کے دوران لوگوں میں شاید ہی ہوا ہوگا جتنا قائداعظم کی ولولہ انگیزی سحر انگیز اور پر اثر شخصیت کے زیر تحت ہندوستان کے مسلمانوں میں تھا۔ ہر زبان پر ایک ہی نعرہ تھا۔ ”پاکستان ہمارا ہے۔
یہی جذبہ تھا اور یہی بیداری تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ اسلامی ریاست مملکت خداداد پاکستان حاصل کرلیا ۔ہم نے پاکستان بننے کی خوشی میں بہت قربانیاں دی ہیں سفر کے دوران ایک چھوٹا بھائی بیمار ہوا جو بعد میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ ہندوستان میں بہت بڑے بنگلہ ٹائپ کشادہ گھر میں رہتے تھے اور خاندان کے سبھی لوگ ایک ہی گھر میں تھے آپس میں محبت بے مثال تھی خاندان زراعت سے وابستہ تھا ہجرت کے دوران قیمتی مویشی اور سامان چھوڑ آئے ۔ ہمارا خاندان جتنی اراضی کا ہندوستان میں مالک تھا اس کے مطابق یہاں نہ مل سکا۔
آج تک اراضی کی تقسیم کا کلیم ریونیو بورڈ سے فیصلہ نہ ہوسکا ہے اور کیس کا نشان تک نہیں ملتا۔ بزرگ شہری محبوب احمد خان لودھی نے بتایا کہ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے جلسہ میں خود شرکت کی ہے ،مولانا ظفر علی خان اور دیگر تحریک آزادی کے رہنمائوں کی تقاریر سنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے جو خواب دیکھا تھا پاکستان ایسا نہیں ہے ۔اس زمانے میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی ماحول ایسا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بندی اور دوستی کے ساتھ رہتے تھے نہ کوئی گلہ نا جھگڑا۔ امن و امان کی صورتحال اچھی تھی ۔اس وقت اسی جوش جذبے کی ضرورت ہے جو پاکستان بناتے وقت تھا۔