مہر اعجاز سمرا کا اعجاز

Mehr Ejaz

Mehr Ejaz

تحریر : ایم آر ملک

بظاہر ٹھہرے ہوئے پانی کے تالاب میں کنکر گرنے سے ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہی ہے مگر قدرے بڑا پتھر اس میں ہلچل کی کیفیت پیدا کرنے کیلئے کافی ہے جو پانی بظاہر ساکت و جامدہو کناروں تک لانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے مہر اعجاز سمرا نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر پھینک کر احباب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

لوہانچ برادری کے مہر عبدالرحمان کا کرداربطور سیاسی ورکر لیہ کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسے فعال کردار کے طور پر زندہ نظر آتا ہے تاحد نظر جس کا کوئی ثانی نہیں مہر فضل حسین سمرا مرحوم و مغفور کے ساتھ ان کی رفاقت نہ صرف مثالی رہی بلکہ وہ مہر فضل حسین سمرا کے ایسے ساتھی تھے جو ان کی رائے پر اثر انداز ہوتے رہے ، سیاست میں وہ مہر فضل حسین سمرا کے ہم پلہ کسی سیاست دان کو نہیں گردانتے یہ حقیقت ہے کہ مہر فضل حسین سمرا سیاست کی راہداری کا ایسا جیتا جاگتا کردار رہا جس نے سیاست میں اپنا کردار عبادت سمجھ کر نبھایاایک درویش اور دور اندیش سیاستدان کے سچ سے مخالفین کی ٹانگیں لڑکھڑا جاتیں یہاں یہ کہنا بعید نہیں کہ سمرا قوم ایک بڑی قوم ہے جس میں مہر عبدالحق جیسے دانشوروں کے زریں اقوال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ،مہر غلام حسین ایڈووکیٹ نے ایک ماہر قانون دان کے طورپر اپنا لوہا منوایا ،مہر منظور حسین سمرا جس نے73ء کی آئین سازی کی ایک بڑی پیش رفت میں فخر ایشیاء کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا شرف پایا 1973کے آئین پر ان کے دستخط موجود ہیں ،مہر اختر وہاب سمرا تاریخ لکھ رہے ہیں اور ان کا انداز بیاں ہی جداگانہ رہے گا۔

سمرا اور لوہانچ لیہ کی دو بڑی اقوام ہیں شہر کے لوگوں پر سمرا قوم کا یہ احسان ہے کہ شہر خاموشاں کیلئے تدفین کی جگہ بلامعاوضہ سمرا خاندان نے فراہم کی شہر میں بہت سے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کیلئے انہوں نے اراضی دی انہوں نے سیاست میں کرپشن نہیں کی بلکہ اپنی وراثت کو آگ لگا کر لوگوں کی خدمیت کو شعار بنایا ورنہ یہاں کی سیاست یہ بھی رہی ہے کہ ووٹروں کی جیبیں کاٹ کر سیاست نے اپنی جیبیں بھریں لیہ کے مقامی باسیوں کی حقیقی ملکیت تک لیہ کے سیاستدانوں نے چھین لی اور قابض ہوگئے یہی نہیں گرین بیلٹ تک ان کا قبضہ ہے ایک طویل عرصہ بعد لوہانچ قوم سے مہر طفیل احمد لوہانچ نے سیاست کا میدان چنا اور سابقہ الیکشن ان کا تعارفی الیکشن تھا جس میں ان کو محض 15روز کا وقت مل سکا لیکن اس کے باوجود انہوں نے 8300ووٹ لیکر عوام کے ایوان میں جگہ بنالی مہر طفیل لوہانچ نے الیکشن میں شکست کے باوجود عوامی رابطے کو اپنا معمول بنا لیا اور شاید یہ ان کا اپنا کردار اور وصف ہے کہ لوگ اب ایک کارواں کی شکل میں ان کے ہمرا ہی ہیں۔

مہر طفیل لوہانچ سے میں جب بھی ملا ان کا ایک فقرہ کانوں کی بازگشت بنا کہ ”سیاست رویوں کا نام ہے لوگ سیاست میں رویوں کو شمار کرتے ہیں ”اس سچائی سے مفر نہیں کہ ہاتھ ملاتے رہیئے کا نصب العین ہی اب سیاست کا محور ہے ان کی عوامی خدمات پر روشنی کسی اور کالم میں ڈالوں گا لیکن فی الوقت شہر میں ان کی پذیارائی کی جو گونج سنائی دے رہی ہے اس کی بازگشت ایک لمبے عرصہ تک سنائی دے گی مہر اعجاز سمرا برسوں کے شناسا ہیں اور یہ اعجاز بھی ان کا ہے کہ انہوں نے لیہ کی بڑی برادریوں کو ایک پلیٹ فارم پر ایک نصب العین کے تحت اکٹھاکرنے کا شرف پایا کرونا وبا نے جہاں ہم سے بہت پیارے چھین لئے وہاں سماجی رابطے تک معطل ہوگئے۔

اب جب اس وبا کا اثر تھما ہے تو مہر اعجاز نے پہل کرنے میں جو عجلت دکھائی اس کا علم آخری وقت تک ہمیں نہ ہونے دیا وہ بازی لے گئے جس میں ان کی سبقت آنے والے انتخابات تک برقرار رہے گی مہر احمد حسن کلاسرہ نے بھی مہر طفیل لوہانچ کی خاطر اپنے دوست احباب کے در پر دستک دی ہے 2002کے الیکشن میں جب پہلی بار سید ثقلین بخاری الیکشن لڑنے کیلئے میدان عمل میں آئے تو جس چیز نے ان کی جیت اور کثیر ووٹ بنک کو ٹوٹنے نہ دیا وہ عوامی رابطہ مہم تھی ڈور ٹو ڈور دستک دینے کا سلسلہ مہر طفیل بھی شروع کر چکے ہیں اور رات گئے جب وہ گھر لوٹتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ الیکشن مہم ایسے چلا رہے ہیں جیسے عام انتخابات سر پرہوں لوگوں کا تعاون اور پذہرائی دیکھ کر لگتا ہے کہ لیہ کے سیاسی پسمنظر میں آہستہ آہستہ مہر طفیل کی شبیہ اُبھر رہی ہے اور سیاسی مطلع صاف ہوتے ہی جس سیاست دان کی شبیہ ابھر کر سامنے آئئے گی وہ مہر طفیل حسین لوہانچ ہی ہونگے بہر کیف اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مہر اعجاز حسین سمرا اور مہر عبدالرحمان لوہانچ اس کارواں کے ہراول ہیں جنہوں نے محلہ قادر آباد میں اکٹھ کر کے مہر محمد طفیل لوہانچ کی جیت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور اس جیت کیلئے سیاست کے جمود زدہ تالاب میں پہلا پتھر مہر اعجاز نے پھینکا ہے اس کا میاب انعقاد پر مہر اعجاز سمرا کو مبارکباد

Mr Malik

Mr Malik

تحریر : ایم آر ملک