مہران بنک سکینڈل کے کردار کی منطق

Revolution

Revolution

تحریر: ایم آر ملک

انقلاب کی آواز سورِ اسرافیل بن کر فضا میں مرتعش ہو رہی ہے اورجعلی اقتدار کی بارگاہوں میں اندیشے جنم لے رہے ہیں سلطان ٹیپو شیہد کی مجاہدانہ للکار میرے کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے مسلم تاریخ کے اوراق پر سات صدیاں ہو چلیں منفی رحجانات کی پر چھائیوں کا تسلظ ٹوٹنے میں نہیں آرہا میں نے 17جون کو 19مارچ 1940کا معرکہ لاہور برپا ہوتے دیکھا بڑی عظیم و جلیل اور لازوال تھی وہ قربانی جو خوفناک برطانوی سامراج کے خلاف بروئے کار آئی 313خادمان خلق نے منظم ترین فریضہ سر انجام دیا تاریخ کامورخ اس دن کی عظمت کو نظر انداز نہیں کر سکے گا جب غلام قوم کے شاہین دیو استبداد سے پنجہ آزما ہوئے جب پیدل سر پھروں نے گھوڑ سوار ں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا جب بیلچے آتش باز رائفلوں سے ٹکرائے جو کچھ ہوا تاریخ کے الفاظ میں ڈھل گیا

ایک غیر فانی کارنامہ کی حیثیت سے اُس کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا میری آنکھوں کے سامنے سنساتی گولیوں ،بے گناہ کلائیوں میں ہتھکڑیوں کی جھنکار ہے جو کربلائے ماڈل ٹائوں میں رائیونڈ کی شہنشاہیت کے ہاتھوں بر پاہوئی جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ہاتھوں آزادی کے متوالوں اور قصہ خوانی بازار پشاور کی فائرنگ چیخ چیخ کر شہادت دے رہی ہے کہ ماڈل ٹائون میں رقص بسمل کے جگر پاش مناظر کے سامنے خونِ گم گشتہ عزائم اور دم توڑتی اُمنگوں کے دلدوز وجگر سوز نقشے دھندلا گئے پھر جس طرح ایف آئی آر کا اندارج ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ہوا اُسے عدالتوں پر ایک دبائو قرار دیا جاسکتا جس کے تحت انصاف کی لاش طاقت کے سامنے بے گورو کفن پڑی ہے

دو ماہ کے عرصہ میں عوام نے زیادہ بلوغت ،زیادہ بلاغت ،زیادہ بہادری اور زیادہ اعتماد و جذبے کے ساتھ اپنی طاقت اور سرگرمی سے حکومتی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ایک بات مذاکرات کی ہوئی مگر مذاکرات کے گورکھ دھندے کے ذریعے کوئی معاہدہ طے بھی پاجاتا تو یہ معاہدہ کسی طور عوام کی انصاف کی تڑپ کو مطمئن نہ کر پاتا یہی نہیں بلکہ محض واپسی سے عوام کے سنجیدہ و زندہ معاشی و سماجی مسائل حل نہیں ہو سکتے جس کیلئے وہ اپنا تن من دھن وارتے ہوئے عمران کے پیچھے کھڑے ہو چکے ہیں یہ سمجھنا اور اس کی توقع تک رکھنا بھی انتہائی پاگل پن کے سوا کچھ نہیں کہ ایک سرمایہ دار قوت جس نے سرمائے کی بنیاد پر چند ضمیر فروش ،قلم فروشوں کو خرید رکھا ہو کسی بھی ،کہیں بھی کسی بھی حالت میں ،کسی بھی صورت میں کسی قسم کی ذرا سی بھی انقلابی تبدیلی کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دے گی

اسے ن لیگی حلقوں کی جانب سے ایک بے مقصد بحث قرار دیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے وہ بال کی کھال اُتارنے میں لگے ہوئے ہیں کہ عمران اور قادری کی لندن میں ملاقات ہوئی عوامی حلقوں نے اس سوال پر کہ عمران اور قادری ملاقات لندن میں ہوئی ن لیگی اکابرین کی دماغی حالت کو سنجیدگی سے لینے کا عندیہ ہے کیا یہ بوکھلاہٹ کا نتیجہ نہیں کہ عمران پر ہرزہ سرائی کیلئے اب اُن کے پاس کوئی کارڈ نہیں بچا جس کے ذریعے وہ عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر پائیں،آخری سانسوں پر دم توڑتی ساکھ کو بچا پائیں ؟گو نواز گو کے نعرے ملکی سرحدوں سے نکل چکے ہیں

Pervaiz Rashid

Pervaiz Rashid

خواجہ سرائوں کی جوڑی ،پرویز رشید جیسے حواریوں کی اس کاوش کو داد دینی چایئے کہ وہ نواز شریف کو ایسی دلدل می دھکیلنے کے درپے ہیں جس سے وہ نکلنا بھی چاہیں تو نہ نکل سکیں عوام کے نزدیک طاہر القادری اور عمران ملاقات محض دو محب وطن قوتوں کی ملاقات تھی جس میں سالہا سال سے18کروڑ پاکستانیوں پر مسلط خاندانی بادشاہت سے نجات کی بات کی گئی اگر یہ لندن پلان ہے تو عوام اس پلان کی بھر پور حمایت کرتے ہیں اسے قابل فخر پلان گردانتے ہیں

جس نے باری کا کھیل کھیلنے والوں کی نیندیں محض چند دنوں میں اُڑا دیں چلیں وقتی طور پر مان لیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی لندن میں ہونے والی ملاقات ایک ناقابل معافی جرم ہے ؟ کیا ن لیگی قیادت نے 70انواع و اقسام کے کھانے پکا کر ایک ایسی شخصیت کو رائے ونڈ محل میں مدعو نہیں کیا جس کے گلے میں رسی ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی گئی تھی محضاپنی بادشاہت کے آخری موقع کو بچانے کیلئے !

ایک حکومتی چینل جو ملک دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا پر اصغر خان کیس کے ایک بڑے مجرم اسلم بیگ کے حوالے سے یہ واویلہ کیا جارہا ہے کہ سازش ناکام ہو گئی ایک بے وقت کی راگنی ایک ایسا شخص الاپ رہا ہے جو سانحہ بہاولپور کا اہم کردار تھا جو سیاست میں ناکام خواہش کا شکار ہوا اور اس ناکام خواہش کے سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے جس کی سانسیں ابھی تک بوجھل ہیں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ پکی کرنے کیلئے جس کے ہاتھوں مہران بنک سکینڈل کا جنم ہوا اور جس نے جمہوریت کے نام پر شرمناک کھیل کھیلا جاوید ہاشمی جو اب واقعی ایک ”داغی ” ہے کا دامن بھی مہران بنک سکینڈل کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے

آمریت کے چرنوں میں بیٹھ کر جس نے وزارت پائی جنوبی پنجاب کے ایک قد آور لکھاری اعظم خاکوانی کے اس سچ سے اتفاق کئے بنا چارہ نہیں کہ حالات کے مورخ کا قلم تاریخ لکھنے میں مصروف ہے اور ہر کردار مستقبل کے مورخ کی نظروں کا سامنا کئے بغیر اس راہ گزر سے نہیں گزر پائے گااسلم بیگ کا واویلہ ایک جھوٹی تسکین کا لااُبالی شوروغل ہے ایک ایسی اشرافیہ کا شورو غل جو ایک لمپن (غنڈہ گرد )کردار کی حامل ہے شاید ان سرمائے کے جغادریوں کی اب دکانیں بند ہونے والی ہیںیہ ایک آمر کی گود سے جنم لینے والی ایسی سیاسی جما عت کی وکالت ہے جو ہمیشہ نظریات کے بجائے سرمائے کی بنیاد پر اقتدار میں آتی رہی ہے

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک