تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام آپ کے فقرا کو زبانی یاد تھا ۔ان میں بعض ایسے تھے کہ انہیں پورا کلام حفظ تھا ۔ہاشم فقیر، بلال فقیر اور تیمر فقیر کے متعلق معروف ہے کہ شاہ صاحب کا کوئی شعر ایسا نہ تھا جو انہیں یاد نہ ہو ۔تیمر فقیر نے آپ کے اشعار وافکار قلمبند کیے اور انہیں “گنج شاہ لطیف” یعنی شاہ لطیف کا خزانہ، نام دیا ۔ آپ کی خادمہ مائی نعمت نے بھی اس کام میں اس کی مدد کی۔ یہ نسخہ تیمر فقیر کے ورثا کے پاس محفوظ رہا۔1854ء میں اوڈیرولال کے سید عظیم شاہ نے گنج شاہ لطیف کی پہلی نقل تیار کی جو شاہ صاحب کے دربار میں محفوظ کی گئی ۔بعدازاںدو نقول تیار ہوئیں جن میں سے ایک کو بھِٹ ایڈیشن کہا جاتا ہے۔دوسری بلڑ لے جائی گئی جو شاہ عبدالکریم بلڑ والے کے جانشینوں کے پاس محفوظ رہی۔یہبلڑ ایڈیشن کہلاتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ گنج شاہ لطیف کا اصل نسخہ ناپید ہو گیا۔
اشاعت ِاول: شاہ صاحب کے وصال کے 114 سال بعد 1866ء میں ایک جرمن دانشور ڈاکٹر أرنسٹ ٹرمپ (1828-1885ئ)تاج ِبرطانیہ کی ملازمت میںسندھ آئے ۔ وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو سے آشنا تھے ۔انہوں نے حیدر آباد قیام کے دوران دو سندھی دانشوروں کی مدد سے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹ کے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکے پہلی مرتبہ ”شاہ جو رسالو”نام دیاجو آج تک رائج ہے ۔یہ ٹرمپ ایڈیشن کہلاتا ہے ۔اس نسخہ میں کچھ سر(کمودی،پورب،کارایل،ماروی اور تووٹ) چھوڑدیے گئے اور تحریر وترتیب میں بھی مزید بہتری کی ضرورت رہی ۔ نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا أرنسٹ ٹرمپ ،کلام ِشاہ لطیف کے فروغ میں وہی مقام رکھتے ہیں جو کلام ِعمر خیام میں فٹزگرالڈ اور کلام ِغالب میں مولانا الطاف حسین حالی انصاری کا ہے ۔آپ سندھی ادب کے محسن ہیں۔
اشاعت ِدوئم: ٹرمپ ایڈیشن کے فوراََبعد 1867ء میں قاضی ابراہیم نے وہی نسخہ بمبئی سے شائع کرایامگر ضروری تصحیح وترامیم اور متروک کلام کے شامل ِاشاعت نہ ہونے کے باعث یہ نسخہ زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا۔ دوسرا ایڈیشن ہالہ کے فقیر طالب کی معاونت سے اہم ترامیم کے ساتھ 1877ء میں شائع ہوا۔قاضی ابراہیم کا شائع کردہ بمبئی ایڈیشن کہلاتا ہے ۔یہ ایڈیشن متعدد مرتبہ شائع ہوا۔ان کے بعد سید دوست علی متعالوی اور میر عبدالحسین سانگی نے شاہ جو رسالو شائع کروایا۔
Ernst Trump 1828-1885
میوزیم ایڈیشن: 284صفحات پہ مشتمل شاہ جو رسالو کا ایک نسخہ 1846ء میں برٹش میوزیم میںرکھا گیا جو میوزیم ایڈیشن کہلاتا ہے۔ حکومت ِسندھ ایڈیشن: 1900ء میں حکومت ِسندھ نے تارا چند کی زیر نگرانی شاہ جو رسالو کا ایک معتبر نسخہ شائع کروایا۔ شکارپوری ایڈیشن: 1913ء میںسندھ کے نامور عالم، شمس العلما میرزا قَلِیْچ بیگ نے شکارپور سے شاہ جو رسالو شائع کروایاجو کتابت کی اغلاط اور ترمیم طلب نقاط سے صرفِ نظر کے باعث عوام میں زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔
گربخشانی ایڈیشن: 1923ء میںکراچی سے فارسی کے پروفیسر، ڈاکٹرہوتی چند گربخشانی نے (جو سنسکرت ،سندھی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے )پہلا ایڈیشن شائع کروایااور 1924ء اور 1931ء میں اس ایڈیشن کی دوبارہ اشاعت ہوئی ۔یہ کاوش گزشتہ کاوشوں سے بہتر تھی اور خوبصورت طباعت وترامیم کے باعث عوام میں مقبول ہوئی ۔ دانشوروں نے تنقید کی اور ترامیم کو بہتر خیال نہ کیا ۔ تنقید اسقدر تھی کہ ڈاکٹر گربخشانی بقیہ تیرہ سُر شائع کرانے سے گریزاں رہے جس باعث یہ ایڈیشن ادھورا رہا تمام تر اعتراضات کے باوجود یہ ایڈیشن معلوماتی اور مفید رہا جس کے اعتراف میں اس ایڈیشن کے تین والیم بھٹ شاہ کلچرل کمیٹی نے دوبارہ شائع کروائے۔
Shah jo Risalo
ڈاکٹر گربخشانی کے بعد 1950ء میں غلام محمد سہوانی اور1952ء میںمولانا غلام مصطفٰی قاسمی نے شاہ جو رسالو شائع کروایا۔مولانا قاسمی نے اپنے ایڈیشن میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبداللطیف کے فلسفہ کی یک رنگی بیان کی ۔1958ء میں کلیان ایڈوانی نے ہندوستان سے شائع کروایاجو زیادہ مفید ہے ۔سہوانی اور ایڈوانی نے گربخشانی انداز برقرار رکھا۔ 1961ء میں سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر علامہ آئی آئی قاضی (امدادامام قاضی)بارایٹ لانے نسخہ شائع کرایا مگر تحاریف کے باعث پذیرائی نہ ملی۔ ان تمام کاوشوں میں ڈاکٹر ہوتی چند گربخشانی کی کاوش قابل ِقدر ہے جنہوں نے اشعار میں بیان کردہ آیات ِقرآنی و احادیث ِنبوی پرمختصر تبصرہ کیا۔
1940ء میں ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے نے شاہ جو رسالو کا منظوم انگریزی ترجمہ کیااور شاہ صاحب کی سوانح ” Shah Abdul Latif of Bhit. His Poetry, Life and Time”آکسفورڈیونیورسٹی پریس برطانیہ سے شائع کرائی ۔آپ یورپ کو شاہ عبداللطیف بھٹائی سے آشنا کرانے والے پہلے دانشور ہیں۔ شاہ جو رسالو کا کسی بھی زبان میں ترجمے کا حق ادا کرنا دشوارہے۔شاہ صاحب کی ادبی قدوقامت،ہر مصرع کا ترنم ،الفاظ کا حسن اور دل ودماغ وروح کو مخمور کردینے کی طاقت ایسے عوامل ہیں جو شاہ جورسالو کے اصل نسخہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ کرتے ہیںاور مترجم ان کا حق ادا کرنے سے قاصرہے ۔
Shah jo Risalo
پروفیسر اکرم انصاری کی کتاب” Symbolism in Latif’s Poetry ”1983 ء میںانسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی ،یونیورسٹی آف سندھ نے شائع کی جوافکار ِشاہ لطیف کے خزائن میں قابل ِتذکرہ ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے شاہ جو رسالو کے 47مخطوطات اور 15شائع شدہ ایڈیشنز پر تحقیق کی ہے۔ 1985ء میںریٹائرڈ Cs pمحمد یعقوب آغا کا معرکةالآرا ترجمہ اورتشریح بھٹ شاہ کلچرل کمیٹی نے شائع کیاجس میں قرآن وحدیث اوراسلامی نقطہ نظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سعدی،حافظ، رومی،غالب، جامی ،خیام ،بایزید بسطامی ،بوعلی شاہ قلندر ،حکیم سنائی ،خواجہ معین الدین چشتی ،بہاء الدین نقشبند،فرید الدین عطّارِ نیشاپوری ، نصیر الدین چراغ دہلوی ،امیر خسرو اور دیگر اکابر صوفیا وعارفین کے کلام سے شاہ لطیف کے افکار کی مطابقت ومماثلت کا جائزہ اس نسخے کی نمایاںخصوصیات ہیں۔اس نسخہ کو 2004ء میں وزارت ثقافت وسیاحت، حکومت ِسندھ نے دوبارہ شائع کیا ۔شاہ جو رسالو کے شائع ہونے والے تمام ایڈیشنز میں یہ جامع ترین ایڈیشن ہے جس میں فاضل محقق افکار ِشاہ لطیف کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کی بھرپور کاوش میںکافی حد تک کامیاب ہوئے ۔1994ء میں امینہ خمیسانی کا انگریزی ترجمہ بھٹ شاہ کلچرل کمیٹی حیدر آباد نے شائع کیا۔
ان تمام ایڈیشنزکی اشاعت کے باعث حضرت شاہ صاحب کے افکار و تعلیمات نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔شاہ عبداللطیف بھٹائی کے دیوان کے علاوہ ان کی شخصیت، تعلیمات وافکارپہ شائع ہونے والی لاتعدادکتب کاشمارنہیں۔
Shah Latif’s Wahdatul Wujud
شاہ جو رسالو کے ابواب ”شاہ جو رسالو” 30 ابواب پر مشتمل ہے جنہیں ” سُر” کا نام دیا گیا ہے۔ترتیب ِجدید میں تین ہزاراڑتیس اشعاراورایک سو پچانوے منظومات یا کافیاں ہیںجن میں سات سو تین آیات ِقرآنی واحادیث ِنبوی کاحوالہ ہے۔
سر کلیان،یمن کلیان،پربھتی،آسا،برووسندھی ،کپائتی، دہر،رِپ،کارایل،بلاول اور سارنگ میں عشق الٰہی اور رحمت ایزدی کا تذکرہ ہے ۔شاعر کی روحانی عظمت اور للّٰھیت ان ابواب میں چھلکتی ہے ۔سر کھمبٹ ،سری رگ اورساموندھی میںسلوک الی اللہ کا ذکر ہے اور سالک کے مقامات واہداف کا تذکرہ ہے ۔ سرپورب، رام کالی اور کاھوری روحانی موضوعات رکھتے ہیں۔ سرسوہنی ،سسئی ابڑی، معذوری، دیسی، کوہیاری،حسینی ،ماروی، لیلاچنیسر ،کمودی ،سورتھ،مومل رانو اور گھاتو اخلاقی درس دیتی ہیں اور حکایات ِزمانہ سے بھرپور ہیں۔
Kalyan Advani
وحدت الوجود شاہ لطیف بھٹائی کا کلام حب ِالٰہی اور فلسفہ تصوف سے بھرپور ہے ۔آپ کے اشعار میں عشق ِرسول کی مہک ہے۔انسان کے روحانی ارتقااور مدارج و اہداف کی جانب اشارہ ہے ۔ آپ نے شاہ جو رسالو میںاسرار ومعارف کے دریا بہا دیے ہیں اوراہل ِبیت اطہار کی مد ح سرائی کے ساتھ ساتھ ان کے افکارسے بھی متعارف کروایا ہے ۔ آپ کا سینہ علم ودانش کا خزینہ تھا ۔آپ کی تعلیمات اتباع ِرسول ِاکرم اور حب ِاہل ِبیت ِاطہار کادرس دیتی ہیں۔آپ کی تعلیمات نسل انسانی کی وحدت اور باہمی ربط کی بنیاد،سماجی مراتب سے قطع ِنظر عالم ِ انسانیت کی یکسانیت،عظمت ِ کار و کسب اور ارتقائے مراتب ِ مادہ و روحانیت،معاشرے کے مختلف طبقات میں یگانگت وہم آہنگی پرمرتکزہیں۔
آپ شریعت و طریقت کی معرفت رکھتے وحدت الوجود کا درس دیتے تھے جس کا ذکر آپ کے کلام میں ملتا ہے ۔ آپ کے ہر شعر اور شاہ جو رسالو میں بیان کردہ ہر قصے کی تان وحدت الوجود پر ٹوٹتی ہے ۔خالق ومخلوق کے درمیانی فاصلے مٹانے کے لیے آپ نے عشق ومحبت کا درس دیااور اسی عشق ومحبت کو عام فرمایا۔آپ خود پسندی، خودپرستی ،جارحیت اور رزائل ِاخلاقی کی نفی کرتے اورسادگی،شرافت اورپاکیزگی کے اسوئہ حسنہ کا درس دیتے تھے جو کہ اصل ایمانی زندگی کی بنیاد ہے ۔آپ کے اشعار میں محبت کے ساتھ ساتھ عزم وہمت، جہد مسلسل اور معاشرتی ناانصافی و ظلم کے خلاف علم جہادبلند کر نے کادرس ملتا ہے ۔آپ نے عالم ِانسانیت کو دردمندی، وسعت ِفکر ونظراور محبت کا درس دیا اور اس دور میں رواج پا جانے والے گمراہ کن تصورات کے خلاف جہاد کر کے بہت سی غیر اسلامی رسوم کا خاتمہ کیا۔آپ تصوف وشعریت کا حسین امتزاج تھے۔
Shah Latif Bhittayi
جذبہ حب الوطنی شاہ عبداللطیف بھٹائی حب ِوطن کو جزو ِایمان قرار دیتے فرماتے ہیں کہ میرے آقا نبی ٔ رحمت ۖ نے حب ِوطن کو ایمان کی نشانی قرار دیا ہے ۔آپ کو اپنے دیس سندھ سے محبت تھی۔ آپ نے فارسی کے امتیاز کے دور میں سندھی زبان میں شاعری کی جو آپ کی مٹی سے پیار کاعکاس ہے۔اس دور کے سندھی شعرا فارسی میں شعر کہنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے۔ فارسی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل تھی اور امرا و اہل ِکمال کے مطارِب فارسی سے گونجتے تھے ۔عین اس وقت جب سندھ میں فارسی ادب نصف ِنہار پہ تھا حضرت شاہ صاحب نے زمانے کی رو سے ہٹ کر سندھی زبان کو اپنی شاعری کا ذریعہ بنایا اور بے مثل شاعری سے اس زبان کو مالامال کر دیا۔
شاہ جو رسالو میں بارہااپنے وطن کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی ہے ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں ؛”میری خواہش ہے کہ اپنے وطن کو دیکھتے دیکھتے جان دوں ۔میری صبح کو قید نہ کرنا۔ پردیسن کو اس کے محبوب سے جدا نہ کرنا ۔میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے وطن تھر کی ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی اپنے سر پہ ڈال لوں ۔اگر میں پردیس میں مر جائوںتو میرے جسد کو یہیں دفن کرنا۔”آپ کے فکری محاسن ناقابل ِفراموش ہیں جن میں آپ نے اپنے عملی تصوف کے نکات حسن و دلکشی کے ساتھ عیاںکیے ۔ آپ کے ابیات محض مناظم ہی نہ تھے بلکہ آیات ِربانی کی تفسیر تھے ۔ان اشعار کو پڑھ کر سمجھنے والا اور ان پر عمل پیرا ہونے والا راہِ حق پا لیتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اِسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ