تحریر: انجم صحرائی 2014 بھی بیت گیا زندگی ایک قدم اور آ گے بڑھ گئی بس چند قدم کی مسافت ہے اور منزل قریب بس آ یا ہی چا ہتی ہے۔ گذ رے برسوں کی بات ہے ایک بزرگ سے ملاقات ہو ئی بڑی مختصر سی ملا قات میں نے انہیں اپنی موٹر سا ئیکل پر بٹھا کر ان کی منزل تک پہچا یا منزل پہ پہنچ کے کہنے لگے یار تمہارا شکریہ بس یاد رکھو برف ہے پگھل رہی ہے میں نے کہا جی مگر ان کی کہی میری سمجھ میں نہیں آ ئی آج سو چتا ہوں کہ انہوں نے کتنے سادہ لفظوں میں کتنی سچی بات کہی تھی زند گی بھی تو برف ہی ہے ناں جو لمحہ لمحہ گھلے جا رہی ہے مگر ہم میں سے بہتوں کا اس کا شعور نہیں اسی لئے تو برف کی مانند گھلتی اس زند گی کا ہمیں احساس نہیں ہو تامعصو میت سے جوانی اور پھر بڑھا پا مگر جیسا کسی نے کہا کہ” احساس زیاں جا تا رہا “ہمیں یہ برف کے ما نندگھلتی زندگی کے لمحوں ، منٹوں، دنوں اور سالوں کے زیاں کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔
کا ش ہم جان پا تے کہ برف پگھل رہی ہے کہ برف نے پگھلنا ہی ہے چا ہے اسے کو ئی استعمال کرے یا نہ کرے اسی طرح زندگی کے لمحوں نے تو ختم ہو نا ہی ہے چا ہے کو ئی چا ہے یا نہ چا ہے۔ سنا ہے کہ حشر کاایک دن یوم حساب دنیا کے پچاس ہزار بر سوں جتنا ہو گا اب اس دن کی مدت کو دیکھیں تو دنیا میں سو سال زندہ رہنے والے شخص کو قدرت کی جانب سے 11 سیکنڈیا اس سے کچھ لمحے زیادہ ملتے ہیں انہی چند لمحوں میں انسان معصومت سے بڑ ھا پے تک کا سفر مکمل کر تا ہے ۔ بچپن کے وہ معصوم رویے جو سبھی کو بھلے لگتے ہیں اگر جوانی میں سر زد ہوں تو بندے کو بے وقوف ،کم عقل اور پا گل کہا جا تا ہے اور اگر جوانی کی ٹشکریاں بو ڑھے کر نے لگیں تو گھر والے با بے کے ٹر جانے کی دعا ئیں ما نگنے لگتے ہیں ویسے تو ہما رے ہاں اوسط عمر 50 اور 60 کے درمیان ہے لیکن اگر کو ئی ڈھیٹ با با 80 سے اوپر ٹپ جا ئے تو اس کے مر نے کے بعد لوگ تحت اللفظ کے ساتھ افسوس کم پسماند گان کو مبارک باد زیادہ دیتے ہیں پچھلے دنوں ایک خبر پڑ ھنے کو ملی ایک خاندان کا بزرگ سو سال سے زیادہ زندہ رہا جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے پو توں پڑ پو توں نے ملکر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہو ئے قبر ستاں پہنچا یا۔
تو بات ہو رہی تھی برف کے گھلنے کی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس کا آج گذ رے کل سے بہتر نہیں وہ ناکام رہا تو بس کا میاب کہلا نے کے لئے ہمارا آج بھر پور ہو نا چا ہئیے جدو جہد اور محنت سے بھر پور تاکہ جب آج کا آج کل کا گذرا ہوا کل بن جا ئے تو ہمیں جانے والے کل پر پشیما نی نہ ہو شر مند گی نہ ہو ۔ایک کل جو کل آئے گا اور ایک کل جو ہمارے سفر کا کل ہو گا ہمیں ان سبھی آنے والے کل کی تیاری کر نا ہے اور تیاری کے لئے ہمارے پاس صرف ہمارا آج ہے کل تو یو م حساب ہو گا کہ برف تو پگھل رہی ہے اور نامعلوم کب پھٹے پہ پڑا وہ بوریا رہ جا ئے جس میں برف رکھی تھی۔ گذ رے سا ٹھ بر سوں میں میرے سو ہنے رب نے بڑی مدد کی خود رو پو دے کی طرح جنم لینے والے بندے کو انسان بنا دیا ، جیتا جاگتا ، بھا گتا دوڑتا ، چیختا چلا تا ۔ کہتے ہیں کہ یو ں تو اللہ کریم اس کرہ ارض و سماء میں مو جود ہر شے سے ظا ہر ہے زمین کی پستی سے لے کر آسمان کی و سعتوں تک اسی خا لق کا ئینات کے رنگ بکھرے ہیں ممتاز اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نا ئیک کے ایک پرو گرام میں ایک ہندو مقرر نے ایک شعر پڑھا کیا خوب شعر ہے دیکھیے۔
یہ کہتے ہیں خدا نظر نہیں آتا ہم تو کہتے ہیں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آ تا ایسا ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے اگر کسی غریب کی لاٹری نکل آئے بچے لا ئق و فا ئق بن جا ئیں کسی اچھی پو زیشن میں آجا ئیں تو وہ چا ہے جتنا اپنی محنت کا راگ ا لا پے دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ دیکھو یار باپ تو بغیر رضائی کے مرا سر دیوں میں مگر اللہ کی شان ہے کہ بیٹا۔۔۔۔اور اگر کو ئی فیملی افتاد ز ما نہ کا شکار ہو جا ئے تب بھی لو گ اس فیملی کی غلطیوں کا تذ کرہ کر نے کی بجا ئے اللہ کی شان ہی کا ذکر کرتے ہیں کہ دیکھو اللہ کی شان ہے کہ اس کے باپ دادا تواپنے وقت کے کا میاب انسان تھے یہ بے چا رہ رکشہ چلا رہا ہے یا ہیروئن کے نشہ میں سب کچھ اجا ڑ کے رکھ دیا ۔زندگی کے انہیں مدو جزر میں نہ نظر آنے والا خدا بہت قریب سے نظر آرہا ہو تا ہے ۔یہی کچھ میری زند گی میں بھی ہوا ہے کہ ایک سو سال کی تا ریخ میں میں نے اپنے خاندان کو بار ہا بنتے بگڑتے بکھرتے اور پھر بنتے سنا اور دیکھا ہے اور جب بھی نئی ڈویلپمنٹ ہو ئی میں نے یہی محسوس کیا کہ بس اللہ کی شان ہے اللہ کریم ہی ہیں جو زندگی کو موت اور موت کو زندگی دے کر اپنی شان کااظہار کرتے ہیں اور ہم انسان بس محض مجبوروبے بس ۔۔
Islam
آئیے ایک بار پھر ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں پگھلتی برف اور کا میاب کل کیسے ہو۔ انسانی زندگی کے کامیاب کل کا دارومدار انسان کی محنت پر ہے ایک نو جوان سے بات ہوئی تو اس نے بڑے پتے اور کمال کی بات کی کہ صرف صلا حیت پر انحصار کا میا بی کی ضمانت نہیں لیکن محنت را ئیگاں نہیں جا تی اللہ کریم کسی کی محنت کو ضا ئع نہیں کر تا۔ یقینا آج کی محنت آپ کا کل بہتر بنا سکتی ہے اب رہ گیا وہ “کل “جسے ہمارے دین میں آخرت سے مو سوم کیا گیا ہے تو وہاںکا میا بی کا انحصار محنت سے ممکن نہیں وہاں صرف اللہ کا فضل ہی ہمارا سہا را ہو سکتاہے ۔عبادات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہر مسلمان کو نماز روزے کی پا بندی کرنا چا ہئیے اور دیگر عمال صالحہ بھی انسا نی زند گی اور انسا نی سماج کو خو بصورت بنا نے کے لئے ضروری ہیں مگر عبادات اور اعمال صالحہ ہمارے آ نے والے کا میاب کل کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ اس با رے میں تو اللہ کریم نے واضع فر ما دیا کہ اگر میں قبول کر لوں تو یہ میرا فضل ہے ایسے میں ا گر ہماری دن رات کی عبا دات اور کئے جانے والے اعمال صالحہ قبو لیت نہ پا سکے تو پھر ؟ ایسے میں کا میا بی کہاں ؟
حضور ۖ سے اپنے تعلق و واسطہ اور پیارو محبت کااظہار میرے لئے اس دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام ہے نہ میرے پاس اس کے اظہار کے لئے الفا ظ ہیں اور نہ ہی میری اوقات ۔ بس ایک آ نسو ہیں جو بہہ نکلتے ہیں جب بھی خیر الانام ۖ کا ذکر سنتا ہوں نہ معلوم کیوں ایسا ہو تا ہے اور ہمیشہ ہو تا ہے ۔ ایک میں ہی نہیںبلکہ اس دنیا میں کروڑوں مجھ جیسے مسلمان جو نام کے مسلمان ہیں جنہوں نے نہ تو دین اسلام کو پڑھا ہے اور نہ ہی جن کے اعمال دین متین کے مروجہ اصو لوں کے تحت مکمل اور صالحہہ قرار دئیے جا سکتے ہیں جنہوں نے نہ تو کبھی مکہ دیکھا ہے اور نہ دیار نبی جا نے کی سعادت حا صل ہو ئی ہے نہ وہ فرض سے واقف ہیں اور نہ سنت و نوافل کی بجا آوری میں سب سے آ گے ہیں نہ وہ شب گذ یدہ ہیں اور نہ ان کی پیشا نی پر بنی محرا بیں ان کے نیک و پارساہو نے کی گوا ہی دیتی ہیں جنہوں نے کبھی سیرت طیبہ ۖ کی کتا بیں بھی نہیں پڑھی ہوں گی میں نے انہیں بھی ذکر مصطفےۖ سنتے زارو قطار روتے دیکھا ۔ایک وقت تھا میں سو چا کرتا تھا کہ یہ کیوں روتے ہیں ،ایسی کون سی شے ہے ایسا کون سا جذ بہ ہے جو ان کی آ نکھوں کو چشمہ بنا دیتا ہے میں نے ایک محفل نعت میں ایک ننھے سے بچے کو بے سا ختہ آ نسو بہا تے دیکھا وہ بچہ اس عمر میں نہیں جس میں انسان غم اور محبت کے جذ بوں سے آ شنا ہو تا ہے مگر وہ بچہ فصیح الدین کی نعت سنتے ہو ئے زارو قطار رو رہا تھا اور میں اس کی وارفتگی کو دیکھتے ہو ئے سو چنے لگا اسے کیا ہوا ؟
گذ شتہ دور کی ایک انتخا بی مہم میں مجھے پیر سید خو ر شید شا ہ بخاری کے سا تھ چند دن گذارنے کو ملے میںنے ان دنوں میں شاہ صاحب مر حوم کو خا صا سنا ۔ مر حوم کی انتخا بی تقریریں سیا سی سے زیادہ مذ ہبی ہوا کر تی تھیں ہر انتخا بی جلسہ تلاوت کلام پاک اور نعت رسولۖ شروع ہو تا اور آ قا ۖ پر درود سلام کے ساتھ ختم ہو تا ایک انتخا بی جلسہ میں شاہ صاحب نے میرے اسی سوال کو مو ضوع سخن بنا یا فر ما نے لگے تا جدار مدینہ سے ایسے محبت ،پیار اور عقیدت کر نے والے عقید تمند دنیا بھر میں ڈھیروں مو جود ہیں جن کی انو کھی محبت ایسی ہے کہ نبی اکرم ۖ کا نا م سنتے ہی ان کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جا تے ہیں۔علامہ اقبال کے خادم الہی بخش بیان کرتے ہیں کہ” حضور ۖ کا ذکر سن کر علامہ اقبال کی آ نکھوں سے آ نسو چھلک پڑتے ، حالت غیر ہو جا تی اور غلبہ محبت رسول میں آ نسوئو ں کا نہ رکنے والا سیل ہو تا” شا ئد علامہ اقبال سمیتعشق رسولۖ میں آ نسو بہانے والے ان سب مسلما نوں کو یہ ادراک ہے کہ آ نے والے یوم حساب کے ” کل ” کی کا میا بی کے لئے صرف اور صرف آ قائے تاجدار ۖ سے محبت ہی ضمانت ہے میں نے ایک حدیث پڑھی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ” ایک بدو ( دیہاتی ) حضرت محمد ۖ کی خدمت میں حا ضر ہوا اور پو چھا اے اللہ کے رسول ۖ قیا مت کب آ ئے گی آپ نے سوال سنا اور خا موش رہے بدو نے پھر اپنا سوال دہرایا اور پو چھا کہ قیا مت کب آ ئے گی اللہ کے رسول ۖ پھر خا موش رہے جب یہی سوال بدو نے تیسری بار دہرایا تب آپ ۖ نے اس بدو سے پو چھا کہ کیا تم نے قیامت کی تیاری کی ہے بدو نے کہا نہیں میرے پاس کچھ ایسے اعمال نہیں سوائے آپ ۖ کی محبت کے ۔ بدو کا جواب سن کر آپ ۖ مسکرائے اور فر مایا انسان کی آ خرت اس کے ساتھ ہو گی جس سے اسے محبت ہو گی۔
تو صاحبو ! اگر ہم دیکھیں تو ہمارا حال بھی اسی بدو جیسا ہے بلکہ اس سے بھی بد تر اس کا دامن بھی خالی تھا نہ عبادات تھیں اور نہ اعمال صالح لیکن اس کا دل آ قا ۖ کی محبت سے لبریز تھا اور اسی محبت نے اسے کا میاب کر دیا اس کے محبوبۖ نے اسے اپنے ہم سفر ہو نے کی نوید سنا دی ، آ خرت میں سر خروئی کی ضما نت دے دی ۔ ہما رے پاس تو کچھ بھی نہیں نہ عمل نہ اعمال ، نہ عبا دت نہ ریا ضت ہمارا دامن تو تار تار ہے دل ہے کہ محبت نبی ۖسے خالی اور ویران ہمارا کیاحال کیا ہو گا موت کا یقین بھی ہے ، قیامت کا انتظار بھی احتساب کا خوف بھی ہے اور زاد سفر کچھ بھی نہیں ایسے میں میں کہاں ہو ں گا کیا آ خرت کی شر مند گی اور رسوائی سے بچ پا ئوں گا اللہ کریم نہ بھی کریں میرا حساب مجھے اختیار دے دیا جا ئے کہ جا اپنا حساب خود کر لے اگر تو اپنے حساب میں جنت لے لے تو تجھے جنت عطا کر دیں گے تب بھی یقینا بر بادی میرا مقدر بنے گی ایسے میں بس ایک ہی را ستہ ہے وہ ہے اس خوش نصیب بدو والا را ستہ جس کے اظہار محبت نے اسے آخرت میں نبی ۖ کا ہم سفر بنا دیا یعنی اللہ کریم کے محبوب ۖ سے محبت کا را ستہ ۔ درست کہ ہم سبھی دعوے محبت میں اویس قر نی نہیں بن سکتے ،اقبال کی سی کیفیت ہمارے مقدر میں نہیں آ سکتی مگر یار محبت کے دعویداروں میں سبھی تو محبت کے ضابطوں اور تقا ضوں کو نہیں سمجھتے ایسے دعویدار محبت بھی تو ہو تے ہیں جو نکمے ، نا اہل ، نا سمجھ اور کند ذہن ہو تے ہیں مگر محبوب کے عشق میں آ ہیں بھرتے نظر آ تے ہیں آ نسو بہا تے ہیں محبوب کی بس اک نظر محبت کے لئے تڑ پتے اور جیتے ہیں ۔ بس ہم بھی ایسے ہی بن جا ئیں ہم بھی عشاق رسول ۖ کے ہجوم میںگم ہو جا ئیں تا کہ آ نے والے ” کل ” میں ہم بھی اسی محبتۖ کے صدقے رسوائی و ندا مت سے بچ سکیں ۔کہ یہی ایک راستہ ہے سر خروئی اور کا میا بی کا۔